ترجمہ شدہ ادب سمیت امریکی اب زیادہ پڑھتے ہیِں

ایسے میں جب امریکی گھروں میں بند ہیں اور انہیں سفر کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رہی، انہیں دوسری زبانوں کی ترجمہ شدہ کتابیں غیرملکی ثقافتوں اور مقامات تک لے جا سکتی ہیں۔

ترجمہ شدہ ادب پاروں میں تخصص رکھنے والے نیویارک کے “نیو ویسل پریس” نامی چھاپے خانے کے مشترکہ مالک، مائیکل زیڈ وائز نے بتایا، “ادب دوسرے لوگوں کی زندگی اور سوچ کے انداز (میں جھانکنے کا) ایک دروازہ ہے۔”

مثال کے طور پر فروری میں اُن کا پریس سرگئی لیبے دیو کی سوویت کے دشمنوں پر حملے میں زہر کے استعمال سے متعلق “انٹریسیبل“(ناقابل سراغ)  نامی کتاب شائع کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کتاب آمرانہ حکومتوں کے اندرونی نظام میں  جھانکنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

روچیسٹر یونیورسٹی کے “اوپن لیٹر بکس” نامی پریس کے ناشر چیڈ ڈبلیو پوسٹ نے کہا کہ ترجمہ شدہ ادب اب اہمیت اختیار کرگیا ہے۔

پوسٹ نے کہا، “یہ وقت ہر ایک کے لیے اور بالخصوص امریکیوں کے لیے، دوسرے لوگوں کے نقطہائے نظر کے بارے میں سوچنے کا ہے۔ ہم ایک ایسی  باہم منسلک دنیا (میں رہ رہے) ہیں جہاں اکٹھا ہونا (اب) ضروری نہیں رہا۔ کووڈ-19 کے دوران یہ اہم ہوگیا ہے کہ ہم دیواروں میں گھری شناختوں میں دبک کر نہ بیٹھ جائیں۔”

 نمائش میں رکھی گئی کتب کی قریب سے لی گئی ایک تصویر (© Simona Granati/Corbis/Getty Images)
اوپر تصویر میں دکھائی گئی اطالوی زبان کی کتابوں کے ایلینا فرانی کے انگریزی ترجمے امریکیوں میں مقبول ہیں۔ (© Simona Granati/Corbis/Getty Images)

پوسٹ نے بتایا کہ افسانوں اور شاعری کی امریکہ میں بکنے والی کتب کا ایک فیصد غیرملکی مصنفیین کی کتابوں کے انگریزی تراجم پر مشتمل ہوتا ہے۔ پوسٹ نے 2008ء میں یہ اعدادوشمار اکٹھے کرنے شروع کیے۔ اُس وقت سے لے کر آج تک اس شرح میں تھوڑا سا یعنی 0.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ (اگر وہ اِن میں زبانیں سیکھنے اور کارٹونوں وغیرہ کی کتابیں شامل کر لیتے تو آج یہ تعداد تین فیصد تک جا پہنچتی۔) تاہم ایسی کتابوں کی فروخت میں اضافے کے ساتھ ساتھ عام کتابوں کی مجموعی فروخت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سال 2019 میں امریکہ میں افسانوں اور شاعری کی 572 ترجمہ شدہ کتابیں شائع ہوئیں۔

پوسٹ نے بتایا کہ موجودہ عالمی وبا کے شروع میں بہت سے قارئین نے پرانی مقبول کتابوں کی طرف رجوع کیا۔ وہ بتاتی ہیں، “مگر اب ہم سادے وقتوں کی کلاسیکی کتب کی جانب رجوع کرنے کی بجائے ایک نئی چیز کی  طرف واپس جا رہے ہیں۔”

اشاعتی صنعت کی اکثریت کی طرح، ترجمہ شدہ ادب میں بھی تھوڑی بہت یہی صورت حال ہے یعنی “جیتنے والا سب کچھ لے جاتا ہے۔” پوسٹ کے مطابق آن لائن الگورتھم پہلے ہی سے مقبول مصنفین کو انٹرنیٹ پر کتابیں تلاش کرنے والوں کے سامنے سب سے پہلے لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئے مصنفین کی تشہیر کرنے کی خاطر اخباروں میں نئی تصنیفات پر تبصرے کم ہو گئے ہیں کیونکہ زیادہ تر توجہ اور کتابوں کی فروخت مشہور مصنفین کے حصے میں آتی ہیں۔

حال ہی میں جن مصنفین کی ترجمہ شدہ کتابیں مقبول ہوئیں اور ابھی تک مقبول ہیں اِن میں سویڈش مصنف، آنجہانی سٹیگ لارسن کی  پرتجسس کتب اور ایلیانا فرانی کی مضبوط اطالوی عورتوں کی کہانیاں ہیں۔ اس کے بعد مارکیٹ کا جو حصہ بچ جاتا ہے اُس کے لیے دنیا کے بہت سے مصنفین مسابقتی مقابلہ کررہے ہیں۔ وائز کہتے ہیں کہ حقیقت میں فرانی نے جن کی نئی کتاب کا نام “دا لائنگ لائف آف ایڈلٹس” ہے، امریکی قارئین کے ذہنوں پر امریکہ سے باہر کی دنیا کی کتابوں کے دروازے وا کیے ہیں۔

موجودہ عالمی وبا کے دوران وائز کی ڈیجیٹل کتابوں کی فروخت میں 120 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مگر وہ ترجمہ شدہ ادب کو بڑھاوا دینے والی کتابوں کی انفرادی دکانوں کے بارے میں فکر مند ہیں کیونکہ وہاں جانے والے گاہکوں کی تعداد میں کمی کی وجہ سے یہ دکانیں بند ہو جائیں گی۔

گو کہ وائز کاروباری بنیادوں پر پریس کو چلاتے ہیں مگر ترجمہ شدہ کتابوں کے بہت سے ناشرین تعلیمی یا انسان دوست اداروں سے مدد لیتے ہیں۔ پوسٹ کے مطابق اس اصول سے ایک قابلِ ذکر استثنا ایمیزون ہے جو ترجمہ شدہ کتب چھاپنے والی ایک بہت بڑی کمپنی ہے۔ اس کے “ایمیزون کراسنگ امپرنٹ” نامی پروگرام میں تقریباً تمام تر توجہ الیکٹرانک کتابوں پر مرکوز کی جاتی ہے اور اس پروگرام کے تحت محبت، پرتجسس اور سائنسی افسانوں جیسی کتابوں کی اُن اقسام کو اجاگر کیا جاتا ہے جو امریکی قارئین میں مقبول ہوتی ہیں۔

سینیئر ایڈیٹر لیزا ڈارنٹن نے بتایا، “درحقیقت ہم نئی کہانیوں کی تلاش میں موجدانہ سوچ سے کام لیتے ہیِں۔ ہم جتنا ممکن ہو سکے مترجموں کی کمیونٹی کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور عظیم کتابیں ڈھونڈنے کے لیے دنیا بھر میں پھیلے اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ایمیزون کراسنگ 2010 سے لے کر آج تک 44 ممالک سے تعلق رکھنے والے مصنفین کی 400 کتابیں چھاپ چکا ہے۔ 2019ء میں “ایمیزون کراسنگ کڈز” کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا گیا۔

پوسٹ نے کہا، “دنیا بھر میں حیران کن حد تک اچھے لکھنے والے موجود ہیں اور ایسی کوئی وجہ ہو ہی نہیں سکتی کہ (اُن کی ترجمہ شدہ کتب) انگریزی زبان میں اچھی نہ ثابت ہوں۔”