ترسیلی سلسلے کے چیلنجوں سے مل جل کر نمٹنا

بندرگاہ پر کھڑے جہاز سے سامان اتارا جا رہا ہے (© Jens Büttner/picture alliance/Getty Images)
امریکہ اور جرمنی سمیت دیگر ممالک اشیاء کی قلت میں کمی لانے کے لیے ترسیلی سلسلوں کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ اوپر، 6 جولائی کو وِسمار، جرمنی میں سامان لانے والے بحری جہاز سے سامان اتارا جا رہا ہے۔ (© Jens Büttner/picture alliance/Getty Images)

امریکہ اور اس کے بین الاقوامی شراکت دار اناج، اشیائے صرف، اور دیگر مصنوعات کی حالیہ قلت کو کم کرنے اور مستقبل میں اس سلسلے میں پیدا ہونے والے رخنوں کو روکنے کے لیے عالمی ترسیلی سلسلوں کو مضبوط بنا رہے ہیں۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 20 جولائی کو ترسیلی سلسلے کے وزارتی فورم کے اجلاس  میں کہا کہ اس وقت “ہمیں درپیش تمام فوری عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں [مضبوط ترسیلی سلسلے] انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔”

اِن ترسیلی سلسلوں کا تعلق مندرجہ ذیل شعبوں/اشیا سے ہے-

  • خوراک کا کھیتوں سے دنیا کے بھوک کے شکار لوگوں تک پہنچانا۔
  • پوری دنیا میں کووڈ-19 کا مقابلہ کرنے کے لیے ویکسینیوں اور دیگر طبی سامان کا پہنچانا۔
  • موسمیاتی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے ہوا سے چلنے والے ٹربائن اور صاف توانائی کی دیگر ٹکنالوجیوں کے آلات بنانا۔

کووڈ-19 عالمی وبا نے ترسیل کے عالمی سلسلوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے جس کے باعث صاف توانائی کی ٹکنالوجیوں سے لے کر سیمی کنڈکٹر اور دوائیوں تک کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ یوکرین کے خلاف روس کی بھرپور جنگ کی وجہ سے اناج کی باربرداری رک گئی ہے اور اناج کے ترسیلی سلسلے بند پڑے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھوک کے شکار لوگوں کی صورت حالت مزید خراب ہو گئی ہے۔

 ایک آدمی لوگوں میں خوراک تقسیم کر رہا ہے (© Eduardo Soteras/AFP/Getty Images)
یوکرین کے خلاف روس کی غیرمنصفانہ جنگ نے اناج کے ترسیلی سلسلوں کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ہے جس سے افریقہ میں قحط مزید سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ 6 اپریل کو ایتھوپیا میں ایک طبی کارکن خوراک کے پیکٹ تقسیم کر رہا ہے۔ (© Eduardo Soteras/AFP/Getty Images)

وزارتی فورم کا یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہوا جب امریکی حکومت مذکورہ عالمی بحرانوں سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ 8 جولائی کو امریکی حکومت نے قرن افریقہ کے لیے تقریبا 1.3 ارب ڈالر کی انسانی اور ترقیاتی امداد کا اعلان کیا۔ یوکرین کے خلاف روس کی بلاجواز جنگ سے اِس خطے میں خوراک کی ترسیل کے حوالے سے پیدا ہونے والے خوف کی وجہ سے ایتھوپیا، کینیا اور صومالیہ میں قحط کی صورت حال مزید خراب ہوگئی ہے۔

کووڈ-19 کے خاتمے کے لیے امریکہ پہلے ہی دنیا کے ممالک کو کووڈ-19 ویکسین کی 565 ملین خوراکوں کے عطیات دے چکا ہے۔ یہ عطیات دنیا کو ویکسین کی 1.2 ارب خوراکوں کا عطیہ دینے کے امریکی وعدے کا حصہ ہیں۔

کلیدی اہمیت کی حامل بین الاقوامی شراکت داریاں

بلنکن اور امریکی وزیر تجارت جینا ریمونڈو نے ایک درجن سے زائد معیشتوں اور یورپی یونین کے ساتھ شراکت داری کرتے ہوئے 19 اور 20 جولائی کو ہونے والے اس وزارتی فورم کی مشترکہ میزبانی کی۔ اِس فورم کا اجلاس صدر بائیڈن کی بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ اکتوبر 2021 کے ترسیلی سلسلے کے سربراہی اجلاس کے کام کو لے کر آگے چل رہا ہے۔

اس اجلاس میں یورپی یونین کے علاوہ آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، نیدرلینڈز، جنوبی کوریا، سنگاپور، سپین، برطانیہ اور امریکہ کے نمائندوں نے شرکت کی۔

بلنکن نے بین الاقوامی شراکت داریوں کے ترسیلی سلسلوں میں گڑبڑ پر قابو پانے کے طریقوں کو اجاگر کیا۔ جب کووڈ-19 وبا امریکہ میں پھیلی تو بھارت نے اشد ضروری دوائیں اور آلات بھیجے۔ بعد ازاں جب بھارت میں کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھنے لگی تو انہی ترسیلی سلسلوں کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ نے ہنگامی بنیادوں پر میڈیکل آکسیجن اور علاج معالجے کے لیے دوائیں اور آلات بھجوائے۔

 ماسک پہنے ایک عورت سرنج میں دوا بھر رہی ہے اور پس منظر میں مریض انتظار کر رہا ہے (© Anupam Nath/AP Images)
کووڈ-19 عالمی وبا کے دوران امریکہ اور بھارت دونوں ایک دوسرے کو طبی سازوسامان اور دوائیں پہنچانے کے لیے تیزی سے حرکت میں آئے۔ 10 اپریل کو بھارت کے شہر گوہاٹی میں ایک نرس کووڈ-19 کی ویکسین لگانے کے لیے ٹیکہ تیار کر رہی ہے۔ (© Anupam Nath/AP Images)

بلنکن نے کہا کہ مستقبل کے رخنوں کی روک تھام کے لیے شراکت داروں کو مضبوط ترسیلی سلسلے قائم کرنا ہوں گے۔ مضبوط ترسیلی سلسلے میں مندرجہ ذیل خصوصیات ہونا چاہییں:-

  • وہ شفاف ہونے چاہییں تا کہ شراکت دار معلومات شیئر کر سکیں اور تبدیلیوں کے بارے میں پیشگی جان سکیں اور اِن کے لیے تیار ہو سکیں۔
  • اُنہیں متنوع ہونا چاہیے تاکہ ایک سپلائر دوسرے کی جگہ لے سکے اور کوئی ملک دوسرے ملکوں کے خلاف ترسیلی سلسلوں کو بطور ہتھیار استعمال نہ کر سکے۔
  • انہیں محفوظ ہونا چاہیے تاکہ نقصان دہ سائبر سرگرمیوں کے خلاف کمزوریوں کو کم کیا جا سکے۔
  • انہیں مشترکہ اقدار کے حامل ماحولیاتی اور محنت کے معیاروں کو اپنا کر پائیدار بنانا چاہیے۔

ریمونڈو نے کہا کہ ترسیلی سلسلوں کی مشکلات سے نمٹنے کے لیے امریکی حکومت ملک کے اندر صنعتوں اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے جبکہ عالمی سطح پر امریکی حکومت بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ امریکہ اور یورپی یونین کی تجارت اور ٹکنالوجی کی کونسل اور بحرہند و بحرالکاہل کے اقتصادی فریم ورک کے ذریعے کام کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ “ہم یہ یقینی بنانے کے لیے کہ ہمارے رسدی سلسلے مضبوط، مستعد، اور ہم سب کے شہریوں کے لیے فائدہ مند ہوں، اِن دونوں [سطحوں] کے مذاکرات میں بہت زیادہ پیشرفت کر رہے ہیں۔”

بلنکن نے اس وزارتی فورم کو بتایا کہ “چاہے ہم فوری یا طویل المدتی مشکلات سے نمٹ رہے ہوں، اِن تمام حوالوں سے مضبوط ترسیلی سلسلے قائم کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں۔”