
ترک نژاد امریکی خواتین امریکہ کی خارجہ پالیسی سازیے میں مدد کر رہی ہیں اور علم اور اپنی متنوع آبادی کے تجربے پر انحصار کرنے کی امریکی روائت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ترک تارکین وطن کے ہاں پیدا ہونے والی، ناز دوراک اوغلو اور ترکی سے امریکہ آ کر آباد ہوننے والی، اوزگے گزیلسو کا شمار بائیڈن انتظامیہ کے خارجہ پالیسی کے اعلی سطحی عہدے داروں میں ہوتا ہے۔
دونوں خواتین کانگریس کے عملے کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں اور اب وہ امریکی سرکاری اداروں کے قانون سازی کے امور کی نگرانی کرتے ہیں۔ دوراک اوغلو محکمہ خارجہ میں قانون سازی کے امور کی قائم مقام اسسٹنٹ سکریٹری ہیں اور گزیلسو محکمہ دفاع کی قانون سازی کی ڈپٹی جنرل کونسل کے طور پر کام کرتی ہیں۔
اپنے نئے قائدانہ کرداروں میں وہ امریکی حکومت کے انتظامی اور قانون ساز شعبوں کے مابین باہمی تعاون کو فروغ دیتی ہیں۔
تین برس کی عمر میں امریکہ آنے والی، گزیلسو کہتی ہیں، “ان چیزوں میں سے ایک چیز جس کے بارے میں سب سے مشکور ہوں وہ یہ ہے کہ میں ایک امریکی شہری بنی اور یہ کہ میں ترک نژاد امریکی ہونے پر میں بہت فخر محسوس کرتی ہوں۔ اور (ان دونوں حیثیتوں سے) کسی بھی طرح سے میری اپنا کردار ادا کرنے اور امریکی حکومت کی خدمت کرنے کی اہلیت میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔”
دوراک اوغلو کانگریس اور محکمہ خارجہ کے مابین باہمی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے امریکی ایوان نمائندگان، سینیٹ اور محکمہ خارجہ میں کام کے دوران حاصل ہونے والے اپنے تجربات پر انحصار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “یہ بہت دلچسپ کام ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ موقع ملا ہے۔”

صدر بائیڈن نے امریکی تنوع سے فائدہ اٹھانے کو ایک اولین ترجیح بنایا ہے۔ دفتر میں اپنے پہلے دن نسلی مساوات کے بارے میں جاری کیے جانے والے ایک انتظامی حکم نامے میں بائیڈن نے مساوی مواقع کو “امریکی جمہوریت کا سنگ بنیاد” قرار دیا۔ ان کے حکم نامے میں مساوات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور حکومتی فیصلہ سازی میں انصاف پسندی کو بنیاد بنانے کو منظم انداز سے اپنانے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
دوراک اوغلو اور گزیلسو دونوں روانی سے ترکی زبان بولتی ہیں اور اپنے ورثے سے قریبی طور پر جڑی ہوئی ہیں۔ استبنول میں پیدا ہونے والیں گزیلسو اپنی گھرانے کے ساتھ تب امریکہ آئیں جب اُن کے والد نیو ہیون، کنیٹی کٹ کی ییل یونیورسٹ میں ایک مہمان پروفیسر کی حیثیت سے پڑہانے آئے۔
گوزیلسو اب بھی استنبول اور چیسمے میں گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران وہ ترک کھانے پکاتی ہیں جو انہوں نے اپنی دادی سے سیکھے تھے۔ اس کے باوجود بکلاوا اور دونر کباب جیسے اُن کے پسندیدہ کھانے یا تو بنانے مشکل ہیں یا پھر بن جائیں تو اس طرح کے نہیں ہوتے جیسے اُن کی دادی بناتی تھیں۔
گوزیلسو بتاتی ہیں، “آپ ترکی یا مکنہ طور پر برلن میں واقعی اچھے دونر کباب حاصل کرسکتے ہیں۔” جرمنی کے اس شہر میں ترکی سے باہر رہنے والے ترکوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔ ٹرکش کولیشن آف امیریکا (امریکہ کے ترک اتحاد) کے مطابق امریکہ میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ ترک النسل امریکی آباد ہیں۔
دوراک اوغلو کا گھرانہ تب امریکہ آیا جب اُن کی والدہ کو نیویارک کے موسیقی کے جولیارڈ سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ ملا۔ دوراک اوغلو کے خاندان کا تعلق بنیادی طورر پر استنبول اور ازمیت سے ہے۔ اُن کے خاندان کے زیادہ تر لوگ اب استنبول میں رہ رہے ہیں جہاں وہ اکثر جاتی رہتی ہیں۔ جب دوراک اوغلو نہیں جا پاتیں تو وہ ترکی کی گہری ثقافتی تاریخ کے مطالعے اور اس کے بارے میں فلمیں دیکھ کر لطف اٹھاتی ہیں۔
دوراک اوغلو کہتی ہیں، “امریکہ اور ترکی سمیت دیگر ممالک تب سب سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں جب وہ اپنی آبادیوں کے مکمل تنوع کو بروئے کار لاتے ہیں۔”
گوزیلسو کہتی ہیں کہ تارکین وطن اور دیگر اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھنے والے لوگ حکومت چلانے کے چیلنجوں کے بارے میں نئے خیالات لے کر آتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “ہم سب اپنے تنوع کے ذریعے امریکی جمہوریت کی بہت اچھی خدمت کر رہے ہیں۔”