
یکم فروری کو برما کے فوجی عہدیداروں نے اپنے ملک کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ انہوں نے عہدیداروں، صحافیوں اور سوسائٹی کے دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرلیا۔ انہوں نے مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں چلائیں اور اصلی اسلحہ سے فائرنگ کی جس سے چار افراد ہلاک اور کم از کم 40 زخمی ہوئے۔
امریکہ اور دنیا کے ممالک کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد برما میں جمہوریت کی بحالی اور پرامن مظاہرین کے خلاف فوجی تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
23 فروری کو ایک بیان میں گروپ سیون (جی سیون) ممالک نے کہا کہ ہم ” پرامن احتجاجی [مظاہرین] کے خلاف میانمار کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔” انہوں نے برما کے جمہوری طور پر منتخب کردہ رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور وعدہ کیا کہ اِن کے لیڈر “جمہوریت اور آزادی کی جدوجہد میں میانمار کے عوام کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔”
جی 7 ممالک میں امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور برطانیہ شامل ہیں۔ یورپی یونین کے اعلی نمائندے بھی اس بیان میں شامل تھے۔

18 فروری کو وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی عالمی برادری پر برما میں احتساب کے فروغ کے لیے متفقہ پیغام بھیجنے پر زور دیا۔
محکمہ خارجہ نے کہا کہ بلنکن چہار فریقی مکالمے (کواڈ) کے وزرا کے “برما میں جمہوری طور پر منتخب کی گئی حکومت کو بحال کرنے کی فوری ضرورت” کے بیان میں شامل ہوئَے۔ کواڈ، امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل ہے اور ایک آزاد اور کھلے بحرہند و بحر الکاہل کے خطے کی حمایت کرتا ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا نے ناپسندیدگی کا اظہار کرنے اور اُن لوگوں کو مالی طور پر تنہا کرنے کے لیے جو فوجی بغاوت کے ذمہ دار ہیں اور فوج پر دباؤ ڈالنے کے لیے، برما کے فوجی عہدیداروں پر پابندیاں لگائی ہیں۔
The United States will continue to take firm action against those who perpetrate violence against the people of Burma as they demand the restoration of their democratically elected government. We stand with the people of Burma.
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) February 22, 2021
ٹویٹ
وزیر خارجہ انٹونی بلنکن
امریکی حکومت کا سرکاری اکاؤنٹ
امریکہ برما کے عوام کے خلاف تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف جاندار اقدامات اٹھانے جاری رکھے گا کیونکہ وہ جمہوری طور پر منتخب کی گئی اپنی حکومت کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہم برما کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
11 فروری کو، فوجی حکومت سے وابستہ یا بغاوت کے ذمہ دار موجودہ یا سابقہ 10 عہدیداروں پر امریکی محکمہ خزانہ نے پابندیاں لگائیں۔ محکمہ خزانہ نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے جواب میں 22 فروری کو ریاستی انتظامی کونسل کے دو اضافی ارکان کو بھی پابندیوں کے لیے نامزد کیا۔ امریکہ، فوجی حکام کے خلاف لگائی جانے والی پابندیاں احتیاط سے تشکیل دیتا ہے تاکہ ان سے برما کے عوام یا اس کی معیشت کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
بلنکن نے کہا، “امریکہ بغاوت کے رہنماؤں اور اس تشدد کے ذمہ داروں کی جوابدہی کو آگے بڑہانے کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں کے ایک وسیع اتحاد کے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھے گا۔ برما کے عوام کی حمایت میں ہمارے قدم نہیں ڈگمگائیں گے۔”