تعلیمی آزادی ہر ایک کے لیے اہم ہے

امریکہ میں تعلیمی آزادی کی روایت ایک طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔

سکالر ایٹ رِسک نیٹ ورک (خطرات کے شکار سکالروں کا نیٹ ورک) امریکہ کی ایک غیرمنفعتی تنظیم ہے اور رابرٹ کوئن اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ کوئن اس (آزادی) کو “سچ کو تحفظ دینا اور معلومات میں دوسروں کو شریک کرنا” قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ معاشرے کے لیے اتنی ہی زیادہ اہم ہے جتنی زیادہ ایک آزاد پریس ہے۔

زیادہ تر یونیورسٹیاں اور کالج 1940ء میں یونیورسٹی پروفیسروں کی امریکی ایسوسی ایشن کی طرف سے وضح کیے جانے والے اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اختصار سے یہ اصول ذیل میں بیان کیے جا رہے ہیں:-

  1. پروفیسر اور طلباء کسی بھی ایسے موضوع پر تحقیق اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج کو شائع کر سکتے ہیں جو اِن کے شعبے کے معیاروں پر پورے اترتے ہوں۔
  2. اپنے مضمون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے پروفیسر کو اس چیز کی آزادی حاصل ہے کہ وہ جو کچھ  چاہے اور جس طرح چاہے پڑھائے۔
  3. اپنے پیشہ وارانہ فرائض پورے کرنے کی خاطر اپنے شعبوں میں ماہرین تعلیم  کو سنسرشپ اور ضوابط سے آزاد ہونا چاہیے۔

نصابی آزادی کا اطلاق طالب علموں پر بھی ہوتا ہے۔ درحقیقت اسی تنظیم نے 1967ء میں طالب علموں کے حقوق اور آزادیوں کی بھی ایک فہرست جاری کی۔ یہ طالب علموں کے سیکھنے کے حق کا دفاع کرتی ہے کیونکہ، بقول کوئن کے معاشرے سیکھنے اور سکھانے کے عمل کے ذریعے  ہی ترقی کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، “استاد ڈاکٹر ہوتے ہیں۔” وہ عوام کے علم میں لائے جانے والے مسائل کی تشخیص کی خاطر تفصیلی معائنے کرتے ہیں۔ ‘سکالر ایٹ رِسک’ طالب علموں اور سکالروں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ اکثر حکومتی خامیوں کو بھی منظرعام پر لاتی ہے۔

حال ہی میں، سکالر ایٹ رِسک نے بتایا کہ چین میں چونگقنگ نارمل یونیورسٹی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر کی پڑہانے کی اسناد کو اس وجہ سے منسوخ کر دیا گیا کیونکہ اس نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے ایک معزز مصنف پر تنقید کی تھی۔

ایک اور رپورٹ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ایرانی حکومت اس وقت خاموش تماشائی بنی رہی جب انقلاب اسلامی کے پاسداران کی سپاہ سے رابطے رکھنے والے سرگرم کارکنوں نے اُن طالب علموں پر حملہ کر دیا جو تہران یونیورسٹی میں عورتوں کے حجاب پہننے کے قانون کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے تھے۔

کوئن کہتے ہیں، “برسراقتدار لوگوں اور سوال پوچھنے والوں کے درمیان تناؤ ہمیشہ قائم رہے گا۔”