گریجویشن گاؤن پہنے اداکار چیڈوِک بوزمین لوگوں کی طرف ہاتھ ہلا رہے ہیں (© Eric Thayer/Reuters)
12 مئی 2018 کو واشنگٹن میں اداکار چیڈوِک بوزمین ہوورڈ یونیورسٹی کی 150ویں تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کر رہے ہیں۔ (© Eric Thayer/Reuters)

امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سال کے اِن دنوں میں تقسیم اسناد کی تقاریب کا موسم ہوتا ہے۔ اس سے قبل کہ یونیورسٹیوں کے حکام شدید محنت کے بعد حاصل کی جانے والی ڈگریاں طلبا کو دیں اِن تقریبات کے مہمانانِ خصوصی اپنی تقاریر میں تازہ گریجوایٹوں کو مشورے دیتے ہیں۔

جن لوگوں کو ہر سال خطاب کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اُن میں نامور مصنفین، ایگزیکٹوز، سرکاری عہدیدار اور تفریحی شعبے سے تعلق رکھنے والی شخصیات شامل ہوتی ہیں۔ یہ سب لوگ انتہائی شاندار تقریریں کرتے ہیں ۔ یہ تقریریں میڈیا کی توجہ حاصل کرتی ہیں اور سامعین کی یادوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔

ٹوسٹ ماسٹرز انٹرنیشنل ایک غیرمنفعتی تنظیم ہے جو 1924 سے مقررین کو موثر، ہلکی پھلکی، دلکش اور متاثرکن تقریریں کرنے کی تربیت دیتی چلی آ رہی ہے۔ سامعین کی توجہ حاصل کرنے والے مقررین عام طور پر کہانیاں سناتے ہیں اور زندگی کی اُن چیزوں پر زور دیتے ہیں جو اہم ہوتی ہیں (یعنی اپنی جبلت پر بھروسہ کرنا یا حالات سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے مشکل مسائل کا مقابلہ کرنا)۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 6 مئی کو جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں سال 2023 کے گریجوایٹوں سے خطاب میں [امریکی] فٹ بال کے اُس پیشہ ور کھلاڑی کی جو اُن سے پہلے تقریر کر چکا تھا [ازراہ تفنن] ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ سامعین ابھی تک “اس شخص کے بارے میں سوچ رہے ہیں جس کو آخری ٹرافی بچوں کے فٹ بال میں ‘شرکت کرنے’ پر ملی تھی۔'” بلنکن نے گریجوایٹ ہونے والے طلبا کو بتایا کہ تقریباً سبھی لوگ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ زندگی میں کیا کرنا ہے۔ تاہم اپنے متبادلات کا جائزہ لیتے اور اپنے رہنما اصولوں پر قائم رہتے ہوئے انہیں ایک بار پھر یہ سوچنا چاہیے کہ جو کچھ وہ جانتے ہیں اُس کے بارے میں اُن کا کیا خیال ہے۔

وزیر خارجہ سٹیج پر کھڑے تقریر کر رہے ہیں اور اُن کے سامنے گریجوایشن کرنے والے طلبا بیٹھے ہیں (© Elijah Nouvelage/AFP/Getty Images)
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن اٹلانٹا میں جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے گریجوایٹوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ (© Elijah Nouvelage/AFP/Getty Images)

بلنکن نے کہا کہ “راستہ کبھی بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔” انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ انہوں نے وکیل کی حیثیت سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ بعد میں سفارت کار بننے سے پہلے فلمیں بنانے والی ایک کمپنی میں کام کیا۔ ذیل میں قابل ذکر تقاریر میں سے چند ایک اقتباسات پیش کیے جا رہے ہیں:-

اداکار چیڈوِک بوزمین نے بڑی آنت کے کینسر سے 43 سال کی عمر میں اپنی موت سے صرف دو سال قبل واشنگٹن کی ہوورڈ یونیورسٹی میں 2018 کی گریجوایشن کلاس کی تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کیا اور گریجوایٹوں پر زور دیا کہ وہ محض ملازمت ہی نہیں کوئی نہ کوئی مشن بھی تلاش کریں۔ “آپ کی ذات اُن مقاصد میں لپٹی ہونا چاہیے جن کو پورا کرنے کے لیے آپ یہاں موجود ہیں۔ آپ اپنے پیشہ ور مستقبل کے لیے جس راہ کا بھی انتخاب کریں مگر یہ بات یاد رکھیں کہ راستے کی مشکلات کا مطلب آپ کو اِنہی مقاصد کے لیے تیار کرنا ہے۔”

مصنف جارج سانڈرز نے نیویارک کی سیراکیوز یونیورسٹی میں 2013 کی کلاس کے گریجوایٹوں سے خطاب کرتے ہوئے رحمدلی کی اہمیت پر زور دیا: “مجھے اپنی زندگی میں جس چیز کا سب سے زیادہ افسوس ہے وہ رحمدلی کی ناکامیاں ہیں۔ وہ لمحات جب تکلیفوں سے دو چارکوئی انسان میرے سامنے موجود ہوتا ہے تو  میرا ردعمل … سمجھداری پر مبنی ہوتا ہے۔ محتاظ۔ میانہ رو۔”

سابق وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس نے ڈلاس کے سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی کے 2012 کے گریجوایٹ ہونے والے طلبا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے خیالات کے بارے میں سوالات اٹھائیں اور دوسروں کے نقطہائے نظر سے سیکھیں: “رائے قائم کرنے اور اس پر ڈٹے رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم ایسے وقت جب آپ کو مکمل یقین ہو کہ آپ صحیح ہیں پھر بھی کسی ایسے شخص سے بات کریں جو آپ سے متفق نہیں ہوتا۔ اور ہاں اگر آپ ہمیشہ اپنے آپ کو ایسے لوگوں کی صحبت میں پائیں جو آپ کی ہر بات پر ‘آمین’ کہیں تو پھر کسی اور محفل کی تلاش کریں۔”

سرجن اور صحت عامہ کے محقق اٹول گوانڈے نے ریاست میساچوسٹس کے شہر ولیمز ٹاؤن میں واقع ولیمز کالج کے 2021 میں گریجوایشن کرنے والے طلبا کو تجویز دی کہ اگر کوئی کام غلط ہو جائے تو انہیں سرجنوں کی طرح فوری  فیصلے کرنا ہوں گے۔ عام طور پر کسی ناکامی کے لیے لازمی نہیں کہ یہ مکمل ناکامی ہو۔ تاہم آپ کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا یعنی جب کام غلط ہو جائیں تو کیا آپ اپنی غلطی تسلیم کریں گے؟ کیا آپ انہیں ٹھیک کرنے کے لیے [ضروری] اقدامات اٹھائیں گے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ فتح اور شکست کے درمیان فرق کا تعلق خطرہ مول لینے کی خواہش سے نہیں ہوتا۔ اس کا تعلق بچاؤ میں کمال حاصل کرنے سے ہے۔”

مزاحیہ اداکارہ ایمی پوہلر نے کیمبرج، میساچوسٹس میں ہارورڈ یونیورسٹی کی 2011 کی کلاس کے گریجوایٹوں سے خطاب میں دانائی کی باتیں کیں اور اس دوران سامعین کو خوب ہنسایا۔ انہوں نے گریجوایٹوں کی زندگیوں میں دوسروں کی قدروقیمت  کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ “مل جل کر کام کرنے کے لیے کشادہ دلی سے کام لیں۔ دوسرے لوگ اور دوسرے لوگوں کے خیالات و نظریات بالعموم آپ کے خیالات سے بہتر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کوئی گروپ تلاش کریں جو آپ کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی حوصلہ افزائی بھی کرے۔ ان کے ساتھ بہت سا وقت گزاریں۔ یہ آپ کی زندگی کو بدل ڈالے گا۔ آج یہاں اس لیے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے  جس نے یہ سب کام خود کیے ہوں۔”

کیمپس لائف یعنی یونیورسٹی کی زندگی اور امریکی تعلیم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے شیئر امیریکا کو فالو کریں۔