
سفیر ٹیرنس اے ٹوڈمین نے محکمہ خارجہ میں اپنے وقت کے بارے میں کہا، “مجھے مشکلات کھڑا کرنے والا شخص سمجھا جاتا تھا۔ اور میرے لیے یہ کوئی نئی بات تھی۔”
ٹوڈمین (1926–2014) کا شمار اُن اولین سیاہ فام امریکیوں میں ہوتا تھا جنہیں پیشہ ور سفیر نامزد کیا گیا تھا۔ سفیر ایک ایسا عہدہ ہے جس پر صدر اُن لوگوں کا تقرر کرتا ہے جنہوں نے ممتاز خدمات انجام دی ہوتی ہیں۔
انہوں نے محکمہ خارجہ میں غیر سفید فام سفارت کاروں کے لیے راہ ہموار کی۔ اپنے کیریئر میں انہوں نے سیاہ فام سفارت کاروں کے لیے جدوجہد کی اور ادارہ جاتی نسل پرستی کو چیلنج کیا۔
ٹوڈمین امریکی ورجن جزائر کے جزیرے سینٹ تھامسمیں پیدا ہوئے۔ اُن کی والدہ دھوبن اور والد پرچون کی دکان پر کلرک کا کام کرتے تھے۔ وہ 13 بہن بھائی تھے۔ انہیں 1945 میں امریکی فوج میں بھرتی کیا گیا جہاں انہوں نے چار سال خدمات انجام دیں۔
ٹوڈمین نے محکمہ خارجہ میں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز شہری حقوق کے قانون کی منظوری سے ایک دہائی قبل یعنی 1952 میں کیا۔ اس وقت محکمہ خارجہ میں اُن کے علاوہ صرف ایک اور سیاہ فام سفارت کار موجود تھا۔
وہ اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، “مجھے یاد ہے کہ لوگ میرے دفتر میں ملاقاتوں کے لیے آتے تھے، اور وہ آ کر کہتے تھے، ‘ہم مسٹر ٹوڈمین سے ملنے آئے ہیں۔ اور میں کہتا تھا ‘جی ہاں میں ہی مسٹر ٹوڈمین ہوں۔ اندر آ جائیے۔ اور وہ کہتے تھے ‘تم ضرور مزاق کر رہے ہوگے!’ کئی لوگوں کواس حقیقت کو قبول کرنے میں تھوڑا سا وقت لگتا تھا کہ میں ہی وہ شخص ہوں جو کچھ کاموں کا ذمہ دار ہو سکتا ہوں۔ یہ ایک الگ ہی دنیا تھی۔”

ٹوڈمین نے 1957 میں فارن سروس کا امتحان دیا۔ ٹوڈمین کو فارن سروس انسٹی ٹیوٹ (ایف ایس آئی) میں اپنی تربیت کے دوران نسلی بنیادوں پر الگ کرنے کے جنوب کے بدصورت حقائق کا سامنا کرنا پڑا۔
اُس وقت ایف ایس آئی واشنگٹن کے دریائے پوٹامک کے اُس پار روزلن، ورجینیا میں ہوا کرتا تھا۔ اُن دنوں ورجینیا میں لوگ نسلی بنیادوں پر الگ الگ ہوتے تھی یعنی سیاہ فام لوگوں کو ریستورانوں کے اندر یا سفید فام لوگوں کی طرح عوامی سہولیات استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوا کرتی تھی۔
انہوں نے بتایا، “میں نے دیکھا کہ کھانے کے انتظامات میں [ایف ایس آئی] میں ایک چھوٹی سی کافی شاپ تھی جہاں آپ تھوڑے بہت کافی کیک اور کافی، چائے یا کوئی چھوٹی موٹی چیز کھا سکتے تھے۔ جبکہ دوپہر کے کھانے کے وقت تمام سفید فام افسران سڑک کے پار ورجینیا کے ایک باقاعدہ ریستوران میں جاتے تھے اور کھانا کھاتے تھے۔”
جب ٹوڈمین نے اپنے سفید فام ساتھیوں کے ساتھ بھر پور لنچ نہ کھا سکنے کا مسئلہ اٹھایا تو انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اس مسئلے کو محکمے کے اندر لے گئے اور اِسے اُس وقت تک اٹھاتے رہے جب تک یہ انتظامیہ کے انڈر سیکرٹری تک نہیں پہنچ گیا۔
بالآخر محکمہ خارجہ نے ریستوران کے آدھے حصے کو کرائے پر لینے اور اسے تقسیم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ تمام صارفین کے لیے کچن اور عملہ تو ایک ہی ہوتا تھا تاہم ریستوران کا آدھا حصہ محمکہ خارجہ نے کرائے پر لے لیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ریستوران کو نسلی بنیادوں پر الگ نہیں کیا گیا تھا اور ٹوڈ مین وہاں آرام سے بیٹھ کر اپنا دوپہر کا کھانا کھا سکتے تھے جبکہ بقیہ نصف ریستوران کی نوعیت نجی رہی۔
اس کے بعد آنے والے برسوں میں فارن سروس آفیسر کی حیثیت سے ٹوڈمین کا اپنے کیریئر کے نتیجے میں شمار تعینات کیے جانے والے اولین سیاہ فام سفیروں میں ہوا۔ جہاں کہیں بھی انہوں نے خدمات انجام دیں وہاں انہوں نے انسانی حقوق کے ایک فعال کارکن کے طور کام کیا۔
1969 سے 1993 کے درمیان ٹوڈمین چھ مختلف ممالک یعنی ارجنٹینا، چاڈ، کوسٹا ریکا، ڈنمارک، گنی اور سپین میں امریکی سفیر کے طور پر تعینات رہے۔ کارٹر انتظامیہ نے 1977 میں ٹوڈمین کو بین الامریکی امور کا اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ مقرر کیا۔
1995 کے ایک انٹرویو [پی ڈی ایف، 220 کے بی] کے دوران جب محکمہ خارجہ کے مستقبل کے بارے میں ٹوڈمین سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ سفارت کاروں میں مزید تنوع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا، “ہمیں، ایک ملک کے طور پر پالیسی کی تشکیل اور پالیسی کے نفاذ کے لیے بہترین تجاویز کی ضرورت ہے۔ لوگ میٹنگوں میں ایسی حساسیتیں لے کر آتے ہیں جو آپ بصورت دیگر کہیں سے بھی نہیں حاصل کرسکتے۔”
امریکی محکمہ خارجہ یکم فروری کو مشرقی معیاری وقت کے مطابق صبح 9 سے لے کر 10 بجے تک ایک تقریب میں ٹوڈمین کے ورثے کو خراج عقیدت پیش کرے گا جس میں تنوع اور مشمولیت کی چیف آفیسر، سفیر جین امبرکومبی-ونسٹلے مہمان ہوں گیں۔ سفارت کاری میں تنوع کی مزید کہانیوں کے لیے براہ کرم امریکی سفارت کاری کے قومی میوزیم کے فیسنگ ڈپلومیسی نامی پروگرام میں شامل تفصیلات ملاحظہ فرمائیے۔