عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) دنیا بھر میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر تعمیر کر رہا ہے اور اِن کے منفی ماحولیاتی اثرات کے باوجود توانائی کے حصول کا ایک گندہ نمونہ برآمد کر رہا ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق اگرچہ دنیا توانائی کے کم نقصان پہنچانے والے وسائل کی طرف جا رہی ہے مگر چین دنیا بھر میں کوئلے سے چلنے والے 300 سے زائد بجلی گھر یا تو تعمیر کر رہا ہے یا ان کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔
‘گلوبل انرجی مانیٹر’ (توانائی کے عالمگیر نگران) کے مطابق، چین دنیا بھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹوں کے پراجیکٹوں میں مدد کرنے والا چوٹی کا ملک ہے۔ چین اس وقت بیرونی ممالک میں کوئلے سے 53 گیگا واٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے والے پراجیکٹوں کے لیے مالی وسائل فراہم کر رہا ہے۔ چین نے ملک کے اندر کوئلے پر اپنا انحصار بھی بڑہا دیا ہے۔ سال 2020 کی پہلی ششماہی میں چین نے کوئلے سے چلنے والے نئے بجلی گھروں میں 40.8 گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ مقدار جنوبی افریقہ کے کوئلے سے چلنے والے پلانٹوں کی مجموعی تعداد کے قریب ہے۔
چین کی توانائی کی مارکیٹوں کے ماہر، ہارورڈ یونیورسٹی کے لیکچرار، ایڈورڈ کننگہیم نے 29 اپریل 2019 کو نیشنل پبلک ریڈیو کو بتایا کہ ترکی، بنگلہ دیش اور ویت نام سمیت دنیا کے ملکوں میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے نئے پلانٹ عشروں تک ماحول کو آلودہ بنا سکتے ہیں۔
کننگہیم نے کہا، “جب آپ کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پلانٹ پر پیسہ لگاتے ہیں اور زمین میں فولاد گاڑتے ہیں تو یہ 40 سے 50 سال تک کا منصوبہ ہوتا ہے۔”
Too much of the Chinese Communist Party’s economy is built on willful disregard for air, land, and water quality. The Chinese people– and the world– deserve better. pic.twitter.com/HDndBMNVJH
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) August 29, 2020
پی آر سی سالانہ بنیادوں پر زہریلی گیسیں خارج کرنے والا دنیا کا بڑا ملک ہے۔ 2005 اور 2019 کے درمیان توانائی سے متعلقہ پی آر سی کے گیسوں کے اخراج میں 80 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
پی آر سی ملک کے اندر اور بیرونی ممالک میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے پلانٹوں سے ہوا میں پارے سے آلودگی پھیلانے والا ایک نمایاں ملک بھی ہے۔ کوئلے سے چلنے والے نئے پلانٹوں کے لیے سرمایہ مہیا کرنے والے ایک بڑے ملک کے ناطے وہ اپنے ” ون بیلٹ، ون روڈ” (او بی او آر) منصوبے اور حکومتی قرضوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کو توانائی پیدا کرنے کے گندے طریقے برآمد کر رہا ہے۔
او بی او آر کے ذریعے ترقی پذیر ممالک میں نئی سرمایہ کاریاں کرنے کے وعدے کیے جاتے ہیں۔ مگر یہ سرمایہ کاریاں اپنے ساتھ ناقص تعمیر، محنت کشوں سے کی جانے والی زیادتیاں، غیر مستحکم قرضے اور ماحولیاتی نقصان بھی لے کر آتی ہیں جن کا خمیازہ میزبان ممالک کو برسوں تک بھگتنا پڑے گا۔
ایک بہتر متبادل
امریکہ بین الاقوامی شراکت داروں اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر اعلی معیار کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی سستی اور صاف توانائی کی ترقی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
امریکی حکومت کے ایشیا کے لیے “توانائی کے ذریعے ترقی اور نمو کو بڑھانے” (ای ڈی جی ای) نامی منصوبے کے تحت تکنیکی مدد کے واسطے، بحر ہند و بحرالکاہل میں توانائی کی سلامتی، تنوع، رسائی، اور تجارت کی مدد کے لیے 140 ملین ڈالر سے زائد کی رقم وقف کی ہے۔
نومبر 2019 تک، اس پروگرام کے تحت جنوبی سلویسی، انڈونیشیا میں ملک کے ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے پہلے فارم سمیت، قابل تجدید توانائی کے 11 منصوبوں کے لیے 1.5 ارب ڈالر سے زیادہ کی نجی اور حکومتی سرمایہ کاری متحرک کی جا چکی ہے۔ بین الاقوامی ترقی کا امریکی ادارہ، ایشیائی ترقیاتی بنک کے ساتھ مل کر خطے میں توانائی کے منصوبوں میں 7سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر بھی کام کر رہا ہے۔
امریکہ کی بین الاقوامی ترقیاتی کارپوریشن (ڈی ایف سی) دنیا بھر کے اُن 800 ملین لوگوں کو قابل اعتماد، پائیدار توانائی فراہم کرنے کے لیے دو ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے گی جو اس وقت بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ اس سرمایہ کاری سے 2.8 ارب سے زائد ایسے افراد کو بھی فائدہ پہنچے گا جنہیں بجلی کی قابل اعتماد فراہمی تک رسائی حاصل نہیں۔ ڈی ایف سی امریکہ کا ایک سرکاری ادارہ ہے جو کم آمدنی والے ممالک میں نجی شعبے کی بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے میں مدد کرتا ہے۔