شہر پر چھائی دھند سے سورج کا ایک منظر (© Gemunu Amarasinghe/AP Images)
امریکہ اور تھائی لینڈ بنکاک سمیت جنوب مشرقی ایشیائی شہروں میں ہوا کی آلودگی کو کم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ بنکاک شہر کی یہ تصویر 2020ء میں بنائی گئی۔ (© Gemunu Amarasinghe/AP Images)

قطع نظر اس کے کہ آپ کہاں رہتے ہیں، صاف ہوا ہم سب کے لیے اہم ہے۔ اور ہاں یہ ہمارے سیارے کی صحت کے لیے بھی اچھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تھائی لینڈ آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطحوں سے نمٹنے کے لیے امریکہ کے ساتھ شراکت داری کر رہا ہے۔ حالیہ تکنیکی ترقیوں اور تحقیق کے مواقعوں کے ذریعے دونوں حکومتیں تھائی لینڈ کی صاف ہوا کو واپس لانے کے طریقے تلاش کر رہی ہیں۔

آلودگی کی وجوہات کیا ہیں؟

تھائی لینڈ میں ہوا کی آلودگی کی وجوہات میں ٹرانسپورٹیشن، صنعت، جنگل میں بھڑکنے والی آتشزدگیاں اور زراعت شامل ہیں۔ اِن شعبوں میں پیدا ہونے والے انتہائی باریک ذرات پر مشمل مادے لوگوں کے پھیپھڑوں کے اندر داخل ہو سکتے ہیں اور صحت کے لیے سنگین مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔

جنوب مشرقی ایشیا میں ہوا کی آلودگی میں مزید پیچیدگیاں دوسرے ممالک سے آنے والی دھند سے بھی پیدا ہوتی ہیں۔ یہ دھند ہوا کے ذریعے انتہائی باریک ذرات والے مادوں کو بین الاقوامی سرحدوں کے آرپار پھیلا دیتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال 70 لاکھ افراد ہوا کی آلودگی سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہر10 میں سے 9 افراد ایسی ہوا میں سانس لیتے ہیں جو ڈبلیو ایچ او کے صاف ہوا کے معیاروں پر پورا نہیں اترتی۔

سٹاک ہوم کے ماحولیاتی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق (پی ڈی ایف، 1.5 ایم بی)  2019ء میں تھائی لینڈ میں 32,000 قبل از وقت اموات کا تعلق ہوا میں نقصان دہ ذرات کی اونچی سطحوں سے تھا۔

ماضی میں امریکہ کو بھی ہوا اور پانی میں آلودگیوں کی اعلی سطحوں کا سامنا رہا ہے۔ امریکی شہریوں کے زیادہ صاف ہوا، پانی، اور زمین کے مطالبات کے بعد، اُس وقت کے صدر رچرڈ  نکسن نے 1970 میں ماحولیاتی تحفظ کا ادارہ (ای پی اے ) قائم کیا اور صاف ہوا کا قانون منظور کیا۔

آج، ای پی اے ماحولیات کے بارے میں نئے قوانین بناتا ہے، اُنہیں نافذ کرتا ہے، ماحولیاتی مسائل پر تحقیق کرنے کے لیے چوٹی کے سائنس دانوں کی خدمات حاصل کرتا ہے اور ملکی ریاستوں کو ان کے ماحولیاتی پروگراموں میں مالی مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کام کی وجہ سے، امریکہ میں ہوا کے معیار میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ڈرامائی طور پر مثبت تبدیلی آئی ہے۔

صاف ہوا کے معاملات میں تعاون

امریکہ اسی طرح کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے تھائی لینڈ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ نے پورے جنوب مشرقی ایشیا میں ہوا کے معیار کی نگرانی اور اس پر کام کرنے کی استعداد کو بڑہانے کے لیے چیانگ مائی یونیورسٹی اور تھائی لینڈ کے فلکیاتی تحقیق کے انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سے ایک پراجیکٹ کا آغاز کیا ہے۔

اس پراجیکٹ کے تحت حکومت اور تحقیقی ادارے کم لاگت والا باریک ذرات کے مادے کی نشاندہی کرنے والے سنسروں کا ایک  نیٹ ورک تیار کریں گے تاکہ ہوا میں موجود باریک آلودہ ذرات کا پتہ چلایا جا سکے۔ سنسروں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو سائنس دان آلودگی پیدا کرنے والے علاقائی اخراجوں کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کریں گے اور مستقبل میں حکومتی پالیسی میں رہنمائی کریں گے۔

اسی منصوبے کے تحت امریکہ اور تھائی لینڈ کی حکومتیں عوامی رابطے کے پروگراموں کے ذریعے ہوا کی آلودگی کے بارے میں عوامی آگاہی میں اضافہ کرنے پر بھی کام کریں گیں۔

میکانگ کے خطے ہوا کے معیار کی نگرانی

 دریائے میکانگ اور جنگلات کا ایک فضائی منظر (© RooM the Agency/Alamy)
تھائی لینڈ میں دریائے میکانگ کا ایک فضائی منظر۔ (© RooM the Agency/Alamy)

گزشتہ برس امریکہ اور تھائی لینڈ نے ‘میکانگ ایئر کوالٹی ایکسپلورر ٹول’ (میکانگ میں ہوا کے معیار سے متعلق ٹول) کا آغاز کیا۔ یہ کام امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے، ناسا، تھائی لینڈ کی شاہی حکومت کے آلودگی پر قابو پانے والے محکمے اور ارضی معلومات اور خلائی ٹکنالوجی کے ترقیاتی ادارے کے تعاون سے کیا جا رہا ہے۔

یو ایس ایڈ کے مطابق اس ٹول میں تین دن پہلے تک ہوا کی آلودگی کے بارے میں درست پشین گوئی کرنے کے لیے سیٹلائٹ کے ڈیٹا اور کمپیوٹر کے ماڈلوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے تھائی لینڈ کی شاہی حکومت ڈیٹا کی ناکافی معلومات کو مکمل کر سکتی ہے اور نہ صرف بنکاک جیسے شہروں میں بلکہ پورے ملک میں ہوا کے معیار کے بارے میں بھی پشین گوئی کر سکتی ہے۔

یو ایس ایڈ کے علاقائی ترقیاتی مشن کے ایشیا کے ڈائریکٹر، سٹیون جی اولیو نے بتایا، “تھائی لینڈ میں ہوا کا خراب معیارایک سنگین موسمیاتی مسئلہ ہے اور یہ ایک دہائی سے زیادہ پرانا ہے۔”

انہوں نے کہا، “سرویر-میکانگ پراجیکٹ کے ذریعے پورے تھائی لینڈ اور خطے میں ہوا کے معیار کی نگرانی کو بہتر بنانے اور ‘ایئر کوالٹی ایکسپلورر ٹول’ کے ذریعے عوام تک اِن معلومات پہنچانے میں مدد کرکے یو ایس ایڈ خوشی محسوس کرتا ہے۔”