قریباً 40 سال پہلے آیت اللہ خمینی نے دعویٰ کیا  تھا کہ اسلامی انقلاب ایرانی شہریوں کے لیے مساوات اور سماجی انصاف لے کر آئے گا۔ مگر اس کی بجائے ایران کے مقتدر طبقے نے کئی دہائیوں تک حکومتی بدعنوانی اور عام شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھ کر خود کو اور اپنے خاندانوں کو دولت مند بنا دیا۔

اپنی منافقت سے آگاہ بہت سے ایرانی حکام عوامی سطح پر اپنی دولت کا مظاہرہ کرنے سے اجتناب برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ان کے بچے اتنے محتاط نہیں۔ ان کے پرتعیش طرززندگی کا سماجی میڈیا پر مشاہدہ کرنے والے عام ایرانی انہیں ازراہ تحقیر آغا زادے یا ‘اشرافیہ کے بچے’ کہتے ہیں۔

صحافی شاشانک بنگالی اور رامن مستقیم ‘لاس اینجلس ٹائمز‘ میں لکھتے ہیں کہ ” جب دارالحکومت کے پرتعیش محلات میں  20 سال کے لگ بھگ عمروں کی دوشیزائیں 1000 ڈالر کی قیمت کے سینڈل پہن کر تالابوں کے کنارے اچھل کود رہی ہوتی ہیں اسی وقت شہر کے دوسرے حصوں میں مایوس لوگ اہلخانہ کا پیٹ بھرنے کے لیے اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبورہوتے ہیں۔” ان کا اشارہ جنوری 2018 کے مضمون میں ‘تہران کے امیر بچے‘ نامی انسٹاگرام اکاؤنٹ کی جانب تھا۔

منافقت کے خلاف شدید ردعمل

عوام کو سادہ اسلامی زندگی کا درس دینے والی امیر مقتدر اشرافیہ کے دہرے معیارات نے عام محنتی ایرانیوں کو ناراض کر دیا ہے۔

نیویارک میں مقیم ایرانی صحافی عامر احمدی آرین نے جنوری 2018 میں ‘نیویارک ٹائمز‘ میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ‘ایرانی کیوں احتجاج  کر رہے ہیں‘۔ وہ لکھتے ہیں، ”ایرانی عوام حکام کے اہلخانہ کی تصاویر دیکھتے ہیں جن میں وہ مے نوشی کرتے اور دنیا بھر کے ساحلوں پر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب عام لوگوں کی بیٹیوں کو اُن کے سروں سے نقاب سرک جانے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ان کے بیٹوں کو شراب خریدنے پر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔”

وزیر خارجہ مائیک پومپئو کہتے ہیں، ”ایرانی عدلیہ کے سربراہ صادق لاریجانی کی مثال ہی لے لیجیے۔ ان کی کم از کم مالیت 30 کروڑ ڈالر کے برابر ہے۔ انہوں نے یہ رقم سرکاری خزانے میں غبن کے ذریعے اپنے بینک اکاؤنٹ میں منتقل کی۔”

One man standing others sitting, all wearing traditional Iranian attire (© Atta Kanare/AFP/Getty)
ایرانی عدلیہ کے سربراہ صادق لاریجانی (درمیان میں) مارچ 2018 میں تہران میں ماہرین کی اسمبلی میں شرکت کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔ (© Atta Kanare/AFP/Getty)

ٹرمپ انتظامیہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جنوری 2018 میں لاریجانی پر پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔

ایرانی میڈیا کے بعض نیٹ ورک خطرات کے باوجود لاریجانی جیسی اعلیٰ سطحی حکومتی شخصیات کی بدعنوانی کے سکینڈل سامنے لا رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی ممتاز ماہر معاشیات اور سکالر سارا بازوبندی لکھتی ہیں کہ ایرانی میڈیا میں ایک صحافی نے پارلیمان کے ایک رکن کے بارے میں خبر دی جو یہ سوال کرنے پر بمشکل گرفتاری سے بچا کہ ”لاریجانی کے 63 نجی بینک اکاؤنٹ کیوں ہیں جن سے اربوں ریال منافع حاصل کیا چکا ہے۔”

بازوبندی لکھتی ہیں کہ ”ایسے واقعات  سے سامنے آنے والی اشرافیہ کی منافقت نے ایران میں وسیع پیمانے پر عوامی غصے کو جنم دیا”