تیسری پارٹی کے امیدواروں کا امریکی انتخابات میں کردار

کھڑا ہوا ایک آدمی تقریر کر رہا ہے اور اس کے پیچھے دونوں طرف دو آدمی بیٹھے ہوئے ہیں۔ (© Bob Child/AP Images)
جو لیبرمین 2006ء کے ریاست کنیٹی کٹ کے ایک مباحثے میں ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے شریک ہیں۔ اُن کے بائیں طرف ڈیموکریٹک پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار، نیڈ لامونٹ اور دائیں طرف ری پبلکن امیدوار، ایلن شلیسنگر موجود ہیں۔ (© Bob Child/AP Images)

ممکن ہے اُن کے پاس ری پبلکن اور ڈیموکریٹس کی طرح چمک دھمک اور نقدی نہ ہو یعنی انتخابی مہم کے عطیات نہ ہوں مگر ہر چار برس کے بعد دیگر پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے آزاد امیدوار بھی صدارتی انتخاب لڑتے ہیں۔ گو کہ وہ زیادہ توجہ نہیں حاصل کر پاتے مگر اس کے باوجود وہ امریکی سیاسی نظام کا ایک اہم حصہ ہیں۔

سابقہ سینیٹر جو لیبرمین اِن آزاد امیدواروں کو درپیش مشکلات اور اِن کی طرف سے مرتب کیے جانے والے اثرات کے عینی شاہد ہیں۔

2000ء میں جب لیبرمین ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر تھے تو انہوں نے صدارتی امیدوار ایلگور کے ساتھ مل کر نائب صدر کا انتخاب لڑا۔ وہ دونوں ہار گئے۔ بعض تجزیہ کار اِس شکست کی وجہ گرین پارٹی کے امیدوار، رالف نیڈر کے “خراب کرنے والے” اثر کو قرار دیتے ہیں۔ کیا لیبرمین کے دِل میں نیڈر کے خلاف ابھی تک کدورت پائی جاتی ہے؟ آج نیویارک کی ایک قانونی فرم میں کام کرنے والے لیبر مین کہتے ہیں، “یقیناً مگر اتنی زیادہ نہیں۔ انتخاب لڑنا ان کا حق تھا۔”

دلچسپ بات یہ ہے کہ نائب صدر کا انتخاب ہارنے کے چند سال بعد یعنی 2006 میں لیبرمین سینیٹ کی اپنی سیٹ پر ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ کے لیے ہونے والے پرائمری انتخاب میں ہار گئے۔ تاہم ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے انہوں نے جنرل الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ (انہوں نے سینیٹر کی حیثیت سے 2013ء تک خدمات انجام دیں۔)

چھوڑے جانے والے نشانات

ووٹر کسی تیسری پارٹی یا آزاد امیدوار کو شاذونادر ہی منتخب کرتے ہیں مگر باہر والے یہ امیدوار ایجنڈے میں اپنے نکات ڈال کر اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔

واشنگٹن کی امیریکن یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ایلن لچٹمین کہتے ہیں، “تیسری پارٹیوں کا اہم ترین کردار سیاست میں نئے نظریات اور ادارے متعارف کرانا ہوتا ہے۔ وہ جدت طراز ہوتے ہیں۔”

اس کی ایک مثال 1830 کی دہائی میں اینٹی میسونک پارٹی کی طرف سے نامزد کنونشنوں کے انعقاد کے نظریے کا پیش کرنا ہے۔   آج کی بڑی پارٹیاں اب اِن کنونشنوں کا انعقاد کرتی ہیں۔ فری سائل پارٹی (آزاد سرزمین کی پارٹی) نے 1848ء میں غلامی کی مخالفت کا آغاز کیا۔ سوشلسٹ پارٹی نے سوشل سکیورٹی (سماجی تحفظ) اور محنت کشوں کے حقوق کو فروغ دیا جنہیں ڈیموکریٹ صدر فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ نے اپنایا۔ لچٹمین کہتے ہیں کہ لبرٹیرین (آزاد خیالوں) نے نج کاری کے نظریات کو پروان چڑہایا جنہیں بعد میں 1970 کی دہائی میں ری پبلیکن پارٹی نے اختیار کیا۔

نامہ نگاروں کے جمگھٹے میں کھڑے راس پیرو ہنس رہے ہیں۔ (© Richard Drew/AP Images)
ٹیکساس کے ارب پتی راس پیرو اُن نامہ نگاروں کے ساتھ ہنس رہے ہیں جنہوں نے 1992 کی صدارتی دوڑ میں شامل ہونے کے بارے میں پیرو کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا۔ (© Richard Drew/AP Images)

ماہرین سیاسیات وفاقی بجٹ کو متوازن بنانے کے مسئلے پر زور دینے کا سہرا راس پیرو کی 1992 کی صدارتی امیدواری کے سر باندھتے ہیں۔ بجٹ کے مسئلے میں ارب پتی پیرو نے ٹیکساس کے اپنے سادہ رکھ رکھاؤ کو استعمال میں لاتے ہوئے تقریباً 19 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

واشنگٹن میں واقع جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں گریجوایٹ سکول آف پولیٹیکل مینیجمنٹ کی ڈائریکٹر، لارا براؤن کا کہنا ہے کہ پیرو ایک آزاد یا تیسری پارٹی کے امیدوار کے انتخابات پر وسیع پیمانے پر اثرانداز ہونے اور اس کے بعد (ملک کی) بڑی پارٹیوں کے اُس کے نظریات کو اختیار کرتے ہوئے دیکھنے کی ایک عمدہ مثال ہے۔ براؤن کتہی ہیں کہ آزاد امیدواروں کی “حیثیت شہد کی مکھیوں جیسی ہے۔ وہ ایک بار ڈنک مارتی ہیں اور پھر مر جاتی ہیں۔”

تیسری پارٹیوں کے بعض امیدوار لبرٹیرینز، گرین پارٹی اور کانسٹی ٹیوشن پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کے وہ نامزد امیدوار ہوتے ہیں جو پورے ملک میں بیلٹ پیپر پر آنے کے لیے مطلوبہ حمایت حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔ دوسرے، پیرو جیسے وہ لوگ ہوتے ہیں جو بیلٹ پیپر پر اس لیے آ جاتے ہیں کیونکہ وہ بذات خود کرشماتی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔

بیلٹ پیپر پر آنا

صدارتی بیلٹ پیپر پر آنے کا عمل ہر ریاست کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا کوئی امیدوار کسی ایسی پارٹی کا نامزد کردہ ہے جو بیلٹ پیپر پر جگہ پانے کی حمایت کی ایک معقول تاریخ رکھتی ہے۔ پیرو جیسے آزاد امیدواروں کو لاکھوں کے حساب سے دستخط اکٹھے کرنے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

راس پیرو تین ڈبوں کے پیچھے کھڑے ہیں۔ ڈبوں پر پیرو کا نام چھپا ہوا ہے۔ (© Rob Carr/AP Images)
راس پیرو اپنی انتخابی مہم کی محنت کی نمائش کر رہے ہیں یعنی 1992 میں کنٹکی کے پرائمری انتخابات میں بیلٹ پیپر پر آنے کے لیے 40,000 افراد کے لیے جانے والے دستخطوں والے کاغذات سے بھرے ڈبے۔ (© Rob Carr/AP Images)

یہ مشکل کام ہے۔ ایک یا دونوں بڑی پارٹیاں ریاستی قوانین بناتی ہیں اور انہیں ہی اس عمل پر اختیار حاصل ہے۔ لیبر مین نے دونوں بڑی پارٹیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “اور وہ نہیں چاہتین کہ یہ(عمل) آسان ہو جائے۔”

اسی طرح ووٹروں تک پہنچنے کے ایک آسان طریقے یعنی صدارتی مباحثوں میں شمولیت کے لیے جگہ بنانا بھی ایک رکاوٹ ہے۔ شرکت کے لیے امیدواروں کو انتخابی جائزوں میں 15 فیصد حمایت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ 1992ء کے مباحثوں میں پیرو کی شرکت دونوں بڑی پارٹیوں کے علاوہ کسی دوسرے امیدوار کا مباحثوں میں شامل ہونا آخری مثال ہے۔

براؤن نے کہا، “یہ ایک ظالمانہ چکر ہے۔ کیونکہ وہ انتخابی جائزوں میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتے اس لیے اُن کو مباحثوں تک رسائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ نتیجتاً انہیں حمایت حاصل کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔”

کیا وہ جیت سکتے ہیں؟

اگر بیرونی امیدوار بیلٹ پیپر پر آ بھی جائیں تو انہیں جیتنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ یہاں تک کہ 19 فیصد مقبول ووٹ حاصل کرنے والے پیرو، الیکٹورل (انتخابی) کالج میں ایک ووٹ بھی حاصل نہ کر پائے۔ نومبر میں امریکی جب ووٹ ڈال چکیں گے تو اس کے بعد حاصل ہونے والے انتخابی نتائج کو باضابطہ طور پر نئے صدر کا انتخاب کرنے والے الیکٹورل کالج میں حمایت کا حساب لگانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ (بیشتر ریاستیں اپنے ہاں الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی گنتی کرتے وقت “تمام ووٹ فاتح کے نام” کا فارمولہ استعمال کرتی ہیں۔ لہذا ایک امیدوار کو الیکٹورل کالج میں ووٹ صرف اُسی صورت میں ملتے ہیں اگر وہ متعلقہ ریاست میں جیت جاتا/جاتی ہے۔)

لچٹمین کا کہنا ہے، “اس کے باوجود آزاد اور تیسری پارٹی کے امیدوار امریکہ میں تبدیلی کا ایک اہم عنصر ہیں۔” ایسے میں جب اُن کے نظریات کو جیتنے والے امیدوار اپنا لیتے ہیں تو وہ خالی ہاتھ گھر واپس نہیں جا رہے ہوتے۔ “ہمارے ہاں دونوں صورتوں کے بہترین پہلو ہیں: دو پارٹیوں کا مستحکم ایک ایسا نظام جس کو تیسری پارٹی اور آزاد امیدوار حیات نو بخشتے ہیں۔”