ثقافتی تحفظ میں شراکت کار امریکہ اور پاکستان

امریکہ پاکستان کے اُن تاریخی مقامات کے تحفظ میں مدد کر رہا ہے جو ملک کے ثقافتی ورثے اور مذہبی تنوع کی عکاسی کرتے ہیں۔

امریکہ پاکستان بھر میں 31 تاریخی مقامات کی بحالی میں مدد کر رہا ہے۔ اِن میں سے بعض مقامات دو ہزار برس پرانے ہیں۔ بحال کی جانے والی عمارتوں میں بدھ خانقاہیں، ہندو یادگاریں، صوفیا کے مزار اور سولہویں اور انیسویں صدی کے درمیان پروان چڑھنے والی مغلیہ سلطنت کی نوادرات شامل ہیں۔

پاکستان میں امریکی سفارت خانہ بعض پراجیکٹوں کی قیادت کرتا ہے۔ جبکہ دیگر پراجیکٹوں کی مدد ثقافتی تحفظ کے لیے امریکی سفراء کے فنڈ (اے ایف سی پی) کے ذریعے کی جاتی ہے۔

اے ایف سی پی 2001 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے تحت تاریخی اور ثقافتی خزانوں کو ماحولیاتی دباؤ، سماجی اور سیاسی شورشوں، یا وسائل کی کمی کے خطرات کی صورت میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اے ایف سی پی کے ذریعے اب تک دنیا بھر کے 133 ممالک میں 1,000 سے زائد منصوبوں میں مالی معاونت کی جا چکی ہے۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے پاکستان کی سیاحت کی صنعت اور مقامی دستکاروں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ امریکی حکومت ثقافتی تحفظ کی تعلیم پر یونیورسٹی کی شراکت داریوں میں بھی مدد کرتی ہے۔ مثال کے طور پر بوسٹن میں قائم فنِ تعمیر کے کالج نے لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس اور سکردو میں بلتستان یونیورسٹی کے اساتذہ کو ثقافتی ورثے کے انتظام کا نصاب تیار کرنے اور کلاسیں شروع کرنے میں مدد کی۔

پاکستان میں کی جانے والی بحالی کی کوششوں میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:-

 محرابوں کی قطار سے آنے والی دھوپ۔ (© Imran Babur)
کوٹ مٹھن، پنجاب میں حضرت خواجہ غلام فرید کا مزار۔ (© Imran Babur)

امریکی سفارت خانے کے شراکت کار کوٹ مٹھن، پنجاب میں حضرت خواجہ غلام فرید کے مزار میں دیواروں پر بنے نقش و نگاروں، فرشوں، لکڑی کے کام اور بوسیدہ ٹائلوں کی بحالی کا کام کر رہے ہیں۔ خواجہ غلام فرید انیسویں صدی کے ایک صوفی شاعر تھے جنہوں نے سرائیکی زبان سمیت کئی زبانوں میں لکھا۔ اس پراجیکٹ کے شراکت کار علاقے میں سرائیکی کو محفوظ بنانے میں بھی مدد کر رہے ہیں۔

 ایک تاریخی مقبرے کا بیرونی منظر۔ (© Imram Babur)
سلطان ابراہیم کا مقبرہ۔ (© Imram Babur)

سترہویں صدی کے ترخان خاندان کے سلطان ابراہیم اور امیر سلطان محمد کے مقبروں کی بحالی کا کام بھی جاری ہے۔ یہ مقبرے دنیا کے سب سے بڑے قبرستانوں میں شمار ہونے والے  ٹھٹھہ، سندھ کے مکلی کے قبرستان کا حصہ ہیں۔ اس قبرستان میں لگ بھگ 125,000 صوفی بزرگ، علماء، بادشاہ اور دیگر اہم شخصیات دفن ہیں۔

 قدیم عمارات کا فضائی منظر۔ (© Zohaib Hassan)
تختِ بائی۔ (© Zohaib Hassan)

مردان، خیبر پختون خواہ میں پہلی صدی میں تعمیر کیے گئے تخت بائی کے اس خانقاہی کمپلیکس کا شمار خطے میں بچ جانے والے بدھ مت کے آخری مقامات میں ہوتا ہے۔ امریکی تعاون سے اس کمپلیکس کو محفوظ بنایا گیا اور یہاں آنے والوں کو سہولتیں مہیا کرنے پر کام کیا گیا ہے۔

 دیوار پر لکھی عبارت اور بنے نقش و نگار کی قریب سے لی گئی تصویر۔ (© Saad Sultan)
ورن دیو مندر۔ (© Saad Sultan)

ورن دیو مندر سمندروں کے ہندو دیوتا کے احترام میں کراچی، سندھ میں منوڑہ جزیرے پر تعمیر کیا گیا۔ یہ جزیرہ پاکستان کے مذہبی تنوع اور بین المذاہب کمیونٹیوں، مندروں، گرجا گھروں، مساجد اور مزاروں کی ایک مثال ہے۔ امریکی فنڈز سے مندر کے ٹاور اور داخلی دروازے کو مستحکم کرنے، اور چھت، دیواروں اور سائبان کے حصوں کی بحالی میں مدد ملی ہے۔

 مسجد کا رات کے وقت کا ایک منظر۔ (© Shukurullah Baig/Aga Khan Cultural Service Pakistan)
چوک وزیر خان مسجد کی مشرقی سمت کی جون 2017 میں سامنے سے لی گئی ایک تصویر۔ (© Shukurullah Baig/Aga Khan Cultural Service Pakistan)

ایک ملین ڈالر سے زائد کی امریکی فنڈنگ سے لاہور، پنجاب میں واقع چوک وزیر خان مسجد کی بحالی میں مدد کی گئی۔ اس منصوبے کے تحت مسجد کی بنیادوں کو مضبوط بنایا گیا جس سے مقامی کاریگروں کو ملازمتیں ملیں اور سترھویں صدی کے اس مقدس مقام کو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنانے میں مدد ملی۔

متعدد ممالک میں امریکی سفارت خانے اور اے ایف سی پی کے پراجیکٹوں نے اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ثقافتی تنوع کے احترام کو بھی فروغ دینے میں مدد کی ہے۔ یہ ایک ایسی قدر ہے جو 1998 میں سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ کے الفاظ میں “پوری دنیا میں افہام و تفہیم اور امن کے مضبوط تعلقات استوار کرنے میں مدد کرتی ہے۔”