ایتز حائم کنیسے کے مرکزی ہال کے ستون، دیواریں اور چھت (© Yusuf Tuvi)
مرمت کے مراحل کے دوران ایتز حائم کنیسے کا مرکزی ہال جس کی دوہری قربان گاہ، ایک محراب اور گنبد کے نیچے چار ستون نظر آ رہے ہیں۔ (© Yusuf Tuvi)

امریکہ کی ابتدائی مدد سے، ترکی میں تاریخی مقامات کی محفوظگی کے ماہرین ازمیر کے خطے میں ایک تاریخی کنیسے (سنا گاگ) کو بچانے کا کام مکمل کر رہے ہیں۔ حال ہی میں گرنے کے قریب، ایتز حائم نامی کنیسہ بہت جلد علمی ماہرین اور سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھول دیا جائے گا۔

یہودی تاریخ کی بعض اہم ترین خدمات ازمیر میں انجام پائیں۔ پراجیکٹ منیجر نیسم بینکویا نے کہا کہ ترکی کی یہودی برادری کے لیے “اس خاص کنیسے کا بچ جانا اور ورثے کے اس مقام کی بحالی، فخر کا باعث ہے۔ یہ اس شہر کے ایک نئے ثقافتی اور سیاحتی مقام بنانے کے یہودی کمیونٹی کے مقام کو بلند کرتا ہے۔”

ازمیر میں پانچویں صدی قبل از مسیح سے یہودی موجودگی چلی آ رہی ہے۔ عثمانی سلطنت کے دوران یہودیوں کی بڑی تعداد میں آمد پندرھویں صدی میں اس وقت ہوئی جب سپین اور پرتگال سے بیدخل کیے جانے والے یہودی ازمیر میں آکر آباد ہوئے۔ اپنے مسلمان ہمسایوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے تحت رہنے والے ازمیر کے یہودیوں نے 30 سے زائد کنیسے تعمیر کیے جن میں سے بہت سوں کا طرز تعمیر ہسپانوی-یہودی خصوصیات لیے ہوئے تھا۔

ابتدائی 30 کنیسوں میں سے صرف 13 کنیسے باقی بچے ہیں اور وہ بھی بوسیدگی کے مختلف مراحل میں ہیں۔ ایتز حائم کی عمارت کو مستحکم بنا کر کنیسے کی بحالی امریکی محکمہ خارجہ کے ثقافتی تحفظ کے لیے سفیروں کے فنڈ کے تحت 73,000 ڈالر کی دی جانے والی امداد سے ممکن ہوئی۔ (2001ء سے سفیروں کے فنڈ کے ذریعے، محکمہ خارجہ 133 ممالک میں ایک ہزار پراجیکٹوں کے لیے امدادی فنڈ فراہم کر چکا ہے۔)

 ایتز حائم کنیسے کے تزئین شدہ چھت اور رنگے ہوئے ستون (© Yusuf Tuvi)
بحالی کے کام کے آغاز سے قبل ایتز حائم کنیسے کا ایک منظر۔ (© Yusuf Tuvi)

خیال کیا جاتا ہے کہ ایتز حائم کنیسہ ازمیر کا سب سے پرانا کنیسہ ہے اور اس کا تعلق چودھویں یا پندرھویں صدی سے ہے۔ اسے انیسویں صدی کے وسط میں دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی بحالی ‘یہودی ورثے کے ازمیر پراجیکٹ’ کے طور پر جانے جانے والے اُس بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد مزید کنیسوں کو بحال کرنا اور یہودی ورثے پر فلموں کے ذریعے تاریخ پر روشنی ڈالنے والا ایک عجائب گھر اور ایک ثقافتی مرکز قائم کرنا ہے۔

سب سے پہلا اور انتہائی ضروری کام ایتزحائم کنیسے کی عمارت کو سہارا دینے کا تھا۔ کنیسے میں موجود یہودی مذہب کے سارے مواد کو نکال کر محفوظ جگہ پر رکھا گیا تاکہ عمارت کے فرش پر ستون کھڑے کرکے عمارت کو سہارا دیا جا سکے۔ میونسپل حکام نے تورات رکھنے کے محراب اور بیما کے لکڑی کے کام اور مرمت کرنے کے اجازت نامے جاری کیے۔ (بیما کنیسے میں وہ چبوترہ ہوتا ہے جس پر تورات اور سبت اور دیگر مقدس موقعوں پر پڑھے جانے والے  ہفت تورۃ کے لیے میز رکھی جاتی ہے۔) اس کے بعد، گلنے سڑنے سے بچانے کے لیے دیواروں پر حفاظتی رنگ کیا گیا اور کنیسے کی صفائی کی گئی۔

کئی برسوں پر پھیلے اس پراجیکٹ کو عمارت کی تعمیراتی اصلیت کو برقرار رکھنے کو ذہن میں رکھ کر مکمل کیا گیا۔ بنکویا اور اُن کے معاونین نے تحقیق کی، مواد کا تجزیہ کیا اور فرش کو مستحکم بنانے کے کام کے دوران جمع کیے گئے ڈیٹا اور حاصل ہونے والے تجربے کی بنیاد پرمحفوظگی کے منصوبے بنائے۔

تقریباً تین ماہ میں کنیسے کو سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔

اس طر آخرکار یہودی ثقافت کا مرکز کھل جائے گا جس سے بین الثقافتی مکالمے، تحقیق اور ثقافتی سیاحت کے مواقع میسر آئیں گے۔ یہ مرکز ایتز حائم کنیسے سمیت یہودیوں کے 10 تاریخی مقامات پر مشتمل ہوگا۔

 امریکہ اور ترکی کے اتحاد کو مضبوط بنانا

ازمیر کے علاقے کی مدد کرنے کے علاوہ، امریکہ اور ترکی نے 19 جنوری کو منقولہ ثقافتی املاک کی امریکہ میں غیرقانونی درآمد روکنے کے لیے ایک سمجھوتے پر بھی دستخط کیے۔

ثقافتی املاک کی سمگلنگ کو قدیم نوادرات کی منافع بخش مارکیٹ سے بڑہاوا ملتا ہے اور سمگلنگ کا یہ کام منظم بین الاقوامی مجرم اور دہشت گروہ کرتے ہیں۔ اس سمجھوتے پر دستخط کرتے وقت امریکی سفیر ڈیوڈ سیٹر فیلڈ نے کہا کہ یہ چوریاں خاص طور پر ترکی کے لیے”تباہ کن” ثابت ہوئی ہیں جو “کئی ایک ایسی تہذیبوں کا سنگم رہا ہے جن میں سے ہر ایک نے ملک اور دنیا کی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔”

انہوں نے کہا، “آج کا سمجھوتہ امریکہ اور ترکی کے یہ یقینی بنانے کے اُس عزم کا عملی مظاہرہ ہے جس کے تحت ترکی کے ورثے کا تحفظ کیا جائے گا اور یہ مستقبل کی نسلوں کی دسترس میں ہوگا۔”