مسلسل دوسرے برس امریکہ کے خیراتی عطیات بلند ترین سطح پر رہے۔
2021 میں 485 ارب ڈالر کے عطیات دیئے گئے جو کہ 2020 میں دیے گئے 466 ارب ڈالر کی نیا ریکارڈ قائم کرنے والی رقم کے مقابلے میں 4% زیادہ ہیں۔ اگر افراط زر کو شمار کیا جائے تو یہ دونوں رقومات قریب قریب ہیں۔ درحقیقت 2021 کی رقم پہلی رقم کے مقابلے میں تھوڑی سی کم ہے۔
یہ اعداد و شمار حال ہی میں ‘ گیونگ یو ایس اے نامی فاؤنڈیشن’ نے انڈیانا یونیورسٹی کے للی فیملی کے بشریات کے سکول کی تحقیق کا استعمال کرتے ہوئے جاری کی ہیں۔ یہ حقیقت خاص طور پر متاثر کن اور اہم ہے کہ امریکیوں نے گزشتہ دو برسوں میں ہر سال تقریباً نصف کھرب ڈالر دیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمگیر وبائی بیماری سے امریکہ اور پوری دنیا میں بہت سے لوگوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
انسان دوستی کا ماحول
امیر پاسک انڈیانا یونیورسٹی کے بشریات کے سکول کے ڈین ہیں۔ پاسک کہتے ہیں کہ امریکیوں کی یہ عادت ہے کہ وہ خیراتی اداروں جیسے گروپوں کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ اُن کی اس عادت کو امریکی طرز زندگی کے فرانسیسی مبصر الیکسس ڈی ٹوکیویل نے 1835 میں ہی دیکھ لیا تھا۔
غیر منفعتی تنظیموں کی آمدنی کے سب سے بڑے ذرائع خدمات کے عوض وصول کی جانے والی فیسیں ہوتی ہیں جن کی ایک مثال عجائب گھر میں داخلے کے ٹکٹوں سے ہونے والیں آمدنیاں ہیں۔ حکومتی فنڈنگ دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ جبکہ انسان دوستی کا نمبر تیسرا ہے جس میں وصیتوں سمیت انفرادی عطیات شامل ہوتے ہیں۔ یہ عطیات انسان دوستی کے زمرے میں آنے والی رقومات کا تین چوتھائی سے زیادہ حصہ ہوتے ہیں۔
پاسک کہتے ہیں کہ بہت سے امریکی انفرادی طور پر عطیات دیتے ہیں۔ سرکاری امداد کے مقابلے میں انفرادی عطیات کے استعمال سے کم شرائط نتھی ہوتی ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان دوست تنظیمیں دوسروں کی مدد کے لیے اختراعی طریقے آزما سکتی ہیں۔
پاسک بتاتے ہیں کہ “امریکہ میں انسان دوستی کے بارے میں ایک مختلف قسم کی ثقافتی سوچ پائی جاتی ہے۔ ہمارے پاس ٹیکس کا ایسا نظام ہے جو اس کو آسان بناتا ہے؛ ایسے سرکاری ادارے ہیں جو اس سے خوشدلی سے قبول کرتے ہیں؛ اور ایسی تعلیمی، سماجی اور ثقافتی تنظیمیں ہیں جو اس کے پھلنے پھولنے کو ضروری قرار دیتی ہیں۔ یہ ہمارے امریکی ہونے کے مطلب کو وسیع تر معنوں میں سمجھنے کا ایک حصہ ہے۔”

سالویشن آرمی کے امریکی ہیڈ کوارٹر کے ترجمان، ڈیل بینن اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ [سالویشن آرمی] عیسائی خیراتی ادارہ نشے کے عادی افراد کی صحتیابی اور آفات سے متاثر ہونے والے افراد کو رہائش، خوراک اور ایمرجنسی امداد فراہم کرتا ہے۔ سالویشن آرمی امریکی میں خدمات مہیا کرنے والی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ہے۔
بینن کہتے ہیں کہ عطیات دینے والے سب لوگ دولت مند نہیں ہوتے۔ ان کی تنظیم کرسمس کی سرخ کیتلیوں کے لیے مشہور ہے۔ اس میں رضاکار راہگیروں سے گھنٹیاں بجا کر عطیات جمع کرتے ہیں۔ بینن کا کہنا ہے کہ “جب آپ سالویشن آرمی کو دیتے ہیں تو آپ جانیں بچا رہے ہوتے ہیں۔ ہم عطیات دہندگان کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ اس میں جیب سے ایک ڈالر نکال کر کیتلی میں ڈالنے والے شخص سے لے کر ہزاروں لاکھوں ڈالر دینے والے سبھی لوگ شامل ہیں۔”
سالویشن آرمی نے وبائی امراض کے پہلے 18 مہینوں کے دوران 300 ملین افراد کو کھانا فراہم کیا- یہ تعداد عام حالات کی نسبت تین گنا زیادہ تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کے عطیات میں تین گنا اضافہ بھی ہوا۔ 2020 میں تاریخ کے سب سے زیادہ فنڈ جمع ہوئے جبکہ 2021 میں جمع ہونے والے فنڈ 2020 میں جمع ہونے والے فنڈ کے لگ بھگ برابر رہے۔
عطیات دینے کے رجحانات
‘ گیونگ یو ایس اے’ کی رپورٹ میں غیر منفعتی تنظیموں کے عطیات کا حساب لگایا گیا ہے۔ جیسے جیسے شہری زندگی آن لائن منتقل ہو رہی ہے ویسے ویسے زیادہ سے زیادہ لوگ سرکاری غیر منفعتی تنظیموں کی بجائے براہ راست دوسروں کی مدد کر رہے ہیں۔ پاسک کا کہنا ہے کہ وہ ‘گو فنڈ می’ کو امدادی کاموں کے لیے عطیات دے رہے ہیں یا خدمت کے چھوٹے چھوٹے کام کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ کسی ضعیف ہمسائے کا سودا سلف اٹھا کر لے آتے ہیں یا کووڈ-19 وبا میں اضافے کی وجہ سے صفائی کا کام کرنے والے بیروزگار شخص کو پیسے دے دیتے ہیں۔ “یہ انسان دوستی کا ایک شاندار اظہار ہے یعنی عوامی فائدے کا نجی اقدام۔”
خیرات کے یہ غیر رسمی کام گو کہ چھوٹے چھوٹے ہیں مگر اِن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دیگر رجحانات میں امریکہ سے باہر بیرونی ممالک کے نصب العینوں کے لیے دینے میں اضافہ اور کمیونٹی فاؤنڈیشنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شامل ہے۔ یہ فاؤنڈیشنیں پیسہ اکٹھا کرتی ہیں اور پھر اس پیسے کو خرچ کرنے کے طریقوں کے بارے میں اپنی کمیونٹی کے لوگوں سے مشورے کرتی ہیں۔ (کمیونٹی خیراتی ادارے بین الاقوامی سطح پر بھی ترقی کر رہے ہیں۔)
دنیا کی پہلی کمیونٹی فاؤنڈیشن 1914 میں ‘ کلیولینڈ فاؤنڈیشن’ کے نام سے تب شروع کی گئی تھی جب شہر کی سڑکوں پر گھوڑے اور بگیاں چلا کرتی تھیں۔ یہ فاؤنڈیشن آج بھی ترقی کر رہی ہے۔
کلیولینڈ فاؤنڈیشن کی قانونی مشیر، جنجر ملاکر کہتی ہیں کہ خیرات دینے کا ایک ثانوی فائدہ یہ ہے کہ اس سے عطیات دہندگان کو بھی مدد ملتی ہے۔ ملاکر کا کہنا ہے کہ “وہ لوگ جو انسان دوستی کے لیے اپنے ڈالر دیتے ہیں اور پیسہ اکٹھا کرتے ہیں وہ آپ کو ملنے والے سب سے خوش لوگ ہوتے ہیں۔”