جاز موسیقاروں کا امریکی شہری حقوق کو فروغ دینا

نامور امریکی جاز فنکاروں نے بیسویں صدی کے وسط میں شہری حقوق کے لیے افریقی نژاد امریکیوں کی جدوجہد کی حمایت کے لیے موسیقی کا استعمال کیا۔

1958 میں سیکس فون بجانے والے سونی رولنز نے، ڈھول بجانے والے میکس روچ اور ستار نما باس بجانے والے آسکر پیٹفورڈ کے ساتھ “دی فریڈم سویٹ” کے نام سے جاز کا ایک نغمہ ریکارڈ کرایا۔ 20 منٹ طویل اس نغمے کا دورانیہ جاز میں  انقلابی چیز تھی۔ سمتھسونین نیشنل میوزیم آف امریکن ہسٹری میں امریکن میوزک کے سابقہ منتظم اور اب اعزازی طور پر کام کرنے والے جان ہاس نے شہری حقوق کے بارے میں کھل کر بات کرنے پر سویٹ کو جاز کے ابتدائی فن پاروں میں سے ایک فن پارہ قرار دیا۔ تینوں نے یہ گانا امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک کے آغاز کے قریب اور سرکاری سکولوں میں علیحدگی کو غیر آئینی  قرار دینے کے سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کے چار سال بعد ریکارڈ کرایا۔

ہاس نے کہا، “[جاز کا] یہ واحد فن پارہ ہے جو ایجاد اور حیرتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس جیسا کوئی دوسرا نہیں ہے۔”

جاز کے پیانو نوازبلی ٹیلر نے 1963 میں ڈھول بجانے والے گریڈی ٹیٹ اور باس بجانے والے بین ٹکر کے ساتھ  مل کر ایک گانا ریکارڈ کرایا جس کے بول تھے: “کاش مجھے معلوم ہوتا کہ آزاد ہونے کا احساس کیسا ہوتا ہے۔” ٹیلر نے اپنی بیٹی کے لیے یہ گانا ساز پر بجانے کے لیے لکھا تھا۔ تاہم بعد میں نغمہ نگار ڈِک ڈیلس نے ان کے ساتھ مل کر اس نغمے کے مصروں پر کام کیا۔

گلوکارہ اور پیانونواز نینا سیمون گانے کو اُس وقت نئی بلندیوں پر لے گئیں جب انہوں نے کچھ سال بعد اسے اپنے البم ‘ سلک اینڈ سول‘  [ریشم اور روح] کے لیے دوبارہ گایا اور اسے شہری حقوق کے ایک دلکش ترانے کے طور پر مقبول بنایا۔

ہاس نے کہا، “یہ ایک سیدھا سادہ مقدس احساس ہے۔”

1965 میں سیمون نے بلی ہالیڈے کے ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کیے جانے کے خلاف گائے جانے والے  “سٹرینج فروٹ” نامی گانے کو گایا اور اسے  اپنے البم ‘پیسٹل بلیوز‘ میں شامل کیا۔

ہاس کا کہنا ہے کہ جب ہالیڈے نے یہ سوگوار گانا ریکارڈ کرایا، جس میں ہجوم کے ہاتھوں نسل پرستانہ ہلاکتوں کی ہولناکیوں پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا تو اسکے اثرات مرتب ہوئے۔ جبکہ سیمون نے اس گانے سے نئی نسل کو متعارف کرایا۔ ہاس نے سیمون کی اس پیش کش کو”مضبوط، چبھنے والی اور جسم میں خوف سرایت کرنے والی” پیش کش کا نام دیا۔

1960 کی دہائی کے آخر میں سیمون نے کہا کہ گانا گانا اور نسلی تشدد پر اس کے تبصرے کو پھیلانا ایک “فرض” ہے۔

سیمون نے کہا، “ہماری زندگی کے اس اہم دور میں جب سب کچھ انتہائی مایوس کن ہے، جب ہر دن بقا کی بات ہوتی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ آپ مدد کر سکتے ہیں۔ تاہم [آپ] اس میں شامل ضرور ہوں۔”

امریکی کانگریس پر 1964 کا شہری حقوق کا قانون منظور کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر جاز سے متاثرہ فعالیت دیگر سیاسی اور شہری کوششوں میں شامل ہوئی۔ اس قانون کے تحت نسل، رنگ، مذہب، جنس یا قومیت کی بنیاد پر روا رکھا جانے والا  امتیازی سلوک غیر قانونی قرار پایا۔ 1965 کے ووٹ دینے کے حقوق کے قانون نے ووٹنگ کے بہت سے امتیازی طریقوں کو غیر قانونی قرار دیا۔ اسی طرح ہاؤسنگ کے منصفانہ قانون میں (جسے شہری حقوق کا 1968 کا قانون بھی کہا جاتا ہے)  ہاؤسنگ کی صنعت میں امتیازی سلوک سے منع کیا گیا ہے۔