
جس دن دوسری عالمی جنگ حقیقی معنوں میں ختم ہوئی اس دن کو عام طور پر وی- جے ڈے، یا “وکٹری اوور جاپان ڈے” (جاپان پر فتح کا دن) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب شاہی جاپان نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔
جاپان نے 15 اگست 1945 کو (جب امریکی براعظموں اور بحرالکاہل کے مشرقی جزائر میں 14 اگست کی تاریخ تھی) ہتھیار ڈالے۔ جنگ کے خاتمے پر 2 ستمبر 1945 وہ دن تھا جب ہتھیار ڈالنے کی باضابطہ تقریب خلیج ٹوکیو میں امریکی بحری جنگی جہاز، یو ایس ایس مزوری پر منعقد کی گئی۔ جس وقت بحرالکاہل میں اتحادیوں کے سپریم کمانڈر، جنرل ڈگلس میکارتھر ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کو قبول کرنے کی تیاری کر رہے تھے ستمبر کے اسی دن واشنگٹن میں صدر ہیری ٹرومین نے ایک تقریر کی۔ ٹرومین نے کہا، “یہ فتح ہتھیاروں سے بڑھکر ہے۔ یہ ظلم پر آزادی کی فتح ہے۔”

انہوں نے مزید کہا، “آزادی نہ تو سب لوگوں اور نہ ہی تمام معاشروں کو مکمل بناتی ہے۔ مگر تاریخ میں یہ کسی بھی دوسری حکومتی فلاسفی کی نسبت سب سے زیادہ ٹھوس ترقی اور خوشی اور شائستگی کا سبب بنتی ہے۔”
1946ء میں جاپان کے ساتھ بہتر ہوتے تعلقات کا اشارہ دیتے ہوئے ٹرومین نے اس دن کا نام تبدیل کر کے “وکٹری ڈے” (فتح کا دن) رکھا۔ تاہم عام بول چال میں اسے اب بھی وی- جے ڈے ہی کہا جاتا ہے۔ اس کی 75ویں سالگرہ (خواہ اگست میں منائی جائے یا ستمبر میں) مگر یہ اس فتح پر دنیا کو غوروخوض کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ تاریخ دانوں نے بہت سے سابقہ فوجیوں کی یادوں کو محفوظ کیا ہے۔ ذیل میں اِن میں سے چند ایک کی جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں:-
‘ یادگار ترین چیز’
2010 میں اپنی وفات سے چند سال قبل، فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے براؤلو الونسو نے یونیورسٹی آف ٹیکساس، آسٹن کے ایک انٹرویو لینے والے کو، جو ہسپانوی نژاد سابق امریکی فوجیوں کی دوسری جنگ عظیم کے تجربات کو دستاویزی شکل دے رہا تھا انٹرویو دیا۔ “پرپل ہارٹ” اور شاہ بلوط کے پتے کے ہمراہ “برونز سٹار” نامی بہادری کے تمغے حاصل کرنے والے، الونسو نے اٹلی کے دارالحکومت کی آزادی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب 4 جون 1944 کو اتحادی افواج روم میں داخل ہوئیں تو جنگ ایک انتہائی اہم موڑ مڑ گئی۔ (انٹرویو لینے والے نے غلطی سے یہ سال 1945ء لکھا تھا مگر الونسو کے پوتے، والٹ بائرز نے تصدیق کی کہ اُن کے دادا نے 1944ء میں روم میں جنگی خدمات سر انجام دیں۔)

کیپٹن الونسو اور نو فوجیوں نے، جو سب کے سب کیتھولک تھے پاپائے روم سے ملنے کا ایک زبردست طریقہ نکالا۔ جنگی وردیوں میں ملبوس یہ فوجی ویٹی کن کے سینٹ پیٹرز سکوائر میں تعینات سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک محافظ کے پاس گئے اور تقدس مآب پاپائے روم سے ملاقات کرنے کی درخواست کی۔ الونسو نے بتایا کہ محافظ حیران تو ہوا مگر ہماری درخواست آگے پہنچانے پر رضامند ہو گیا۔
الونسو نے بتایا کہ چند لمحوں بعد آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک پادری آئے اور ہم سے پوچھا کہ “ہمارا تعلق کس ملک سے ہے اور دیگر سوالات پیچھے۔” پادری نے کہا کہ ان کے خیال میں ملاقات کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ حیرت زدہ الونسو اور ان کی ساتھیوں کو مختلف کمروں میں سے گزار کر لے جایا گیا۔
الونسو نے وہ منظر یاد کرتے ہوئے بتایا، “دبلے پتلے … کمزور، بارھویں [پوپ] پائیس نمودار ہوئے، ہمارے پاس آئے اور انگریزی میں ہمارے ساتھ باتیں کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ جنگ ختم ہو چکی ہے اور وہ امن چاہتے ہیں۔” پوپ نے فوجیوں کو بتایا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر دعا کریں گے اور انہیں (فوجیوں کو) کہا کہ وہ بھی اتحادیوں اور دشمنوں، اُن سب کے لیے ایک جیسی دعا مانگیں جو جنگ میں شامل ہوئے۔
پوپ نے ہر ایک فوجی کو ایک ایک تمغہ دیا۔ الونسو نے کہا، “میرے ساتھ اٹلی میں پیش آنے والے واقعات میں سے یہ واقعہ ایک یادگار ترین واقعہ تھا۔”

ایک منکسرالمزاج ہیرو
سٹاف سارجنٹ یوکیو کاواموٹو کیلی فورنیا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والدین ہیروشیما، جاپان سے امریکہ آئے۔
جنگ کے دوران بحرالکاہل میں ملٹری انٹیلی جنس میں تعیناتی کے دوران، کاواموٹو نے (جاپانی زبان میں) دستاویزات کا (انگریزی میں) ترجمہ کیا اور جاپانی قیدیوں سے تفتیش کی۔ اُن کی خدمات کی وجہ سے انہیں “کانگریشنل گولڈ میڈل” (کانگریس کا طلائی تمغہ) دیا گیا۔
انہوں نے 2003ء میں لائبریری آف کانگریس کی طرف سے انٹرویو لینے والے کو بتایا، “میں کوئی ہیرو نہیں تھا۔ تاہم میں نے مشکل حالات میں اپنی طرف سے بہتریں کوشش کی۔ “(کاواموٹو کا 2019ء میں انتقال ہوا۔)
کاواموٹو کی فوج میں شمولیت کے تھوڑے عرصے بعد امریکی حکومت کی طرف سے اُن کے والدین کی ایک حراستی کیمپ میں منتقلی اُن کی آزمائشوں میں ایک اور اضافے کا سبب بنی۔ پرل ہاربر پر جاپانی حملے کے بعد، صدر فرینکلن روزویلٹ نے انتظامی حکم نامہ نمبر 9066 پر دستخط کیے جس کا نتیجہ لگ بھگ 120,000 جاپانی نژاد امریکیوں کی نظربندی کی صورت میں سامنے آیا۔ (1988ء میں، اس نا انصافی پر امریکہ نے معافی مانگی اور اُن لوگوں کو یا اُن کے ورثاء کو تلافی کے طور پر 1.6 ارب ڈالر کی رقم کی ادائیگی کا آغاز کیا جن کو نظربند کیا گیا تھا۔)
انہوں نے بتایا کہ جاپانی قیدی بالعموم تعاون کرتے تھے۔ اایک نے تو ایک بڑے جاپانی حملے کے بارے میں بھی بتا دیا جس سے امریکی فوج کو اس حملے کو پسپا کرنے کا وقت ملا اور نتیجے میں انسانی جانیں بچیں۔ کاواموٹو نے بتایا کہ دو ہفتوں کی پیشگی اطلاع سے حقیقتاً بہت بڑی مدد ملی۔”
ایک طائرانہ منظر
لیفٹننٹ رابرٹ جی میکی نے 2 ستمبر 1945 کا بحری جنگی جہاز یو ایس ایس مزوری پر اپنے کھڑے ہونے اور جہاز کے عرشے پر جاپان کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے جانے کی تقریب کی منظرکشی کی۔ ہتھیار ڈالنے کے ایک دن بعد، بحریہ کے اس افسر نے ایک جاپانی اخباری نامہ نگار کے ساتھ خوشدلی سے پیش آتے ہوئے اُسے جو کچھ ہو رہا تھا اُس کو دیکھنے کے لیے جگہ بنا کر دی۔

اپنی وفات سے ایک سال قبل 2003ء میں میکی نے لائبریری آف کانگریس کے انٹرویو لینے والے کو بتایا، “میں اسے سب سے اوپر” والی منزل پر جہاز کی بُرجی میں لے گیا تاکہ وہ عرشے کو بلندی سے دیکھ سکے۔
میکی نے بتایا کہ انہوں نے تقریب میں شرکت کرنے والے جاپانی عہدیداروں کو سیڑھی کے ذریعے جہاز کی پہلی منزل تک جاتے دیکھا۔ اس وقت بحریہ تقریب کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ چاریا پانچ آدمی سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک جنرل بھی وہاں موجود تھا۔
میکی نے یاد کرتے ہوئے کہاا، ” اُن تمام ممالک کے [نمائندے] میز کے پیچھے لائن میں کھڑے ہوگئے جو دوسری عالمی جنگ میں شامل تھے یعنی ولیندیزی (ہالینڈ) اور برطانوی اور فرانسیسی اور روسی بھی۔ اور پھر [جنرل] میکارتھر باہر آئے … اور [جاپانیوں کی طرف سے] ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کو قبول کیا۔ انہوں [جنرل] نے ان [سب] کو اپنے اپنے نام لکھنے اور دیگر کچھ کرنے کا کہا۔”

یہ میز، میس کے ہال کی ایک عام سی میز تھی۔ اس کے استعمال کے لیے میکی نے بحریہ کے کمانڈر ہیرلڈ سٹیسن کو، جنہوں نے بعد میں اقوام متحدہ کے قیام کی دستاویز پر امریکہ کی طرف سے دستخط کیے، قائل کیا۔ میکی نے بتایا، “[سٹیسن] نے میس کی میز لانے کے لیے جہاز کے متعلقہ افسر” اور بحریہ کے ایک اہلکار کو وہ سبز رنگ کا اونی کپڑا لانے کا بھی کہا جسے “ہم میز پر بچھا کر تاش کھیلا کرتے تھے۔” میں نے کہا، ” ‘ہیرلڈ مجھے تو یہ ٹھیک لگتا ہے!'”

اس تقریب کے اختتام کے بعد اور جب سب لوگ چلے گئے تو ایسے میں جب یو ایس ایس مزوری خلیج ٹوکیو سے روانہ ہونے کی تیاری کر رہا تھا، میکی نے بتایا، … “سلامی دیتے ہوئے ایک یا دو سو امریکی طیارے اس جہاز کے اوپر سے گزرے۔”