Elderly man waving with his wife by his side (© Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images)
ملکہ میچیکو کے برابر میں بیٹھے جاپان کے شہنشاہ آکی ہیٹو 18 اپریل 2019 کو اپنے چاہنے والوں کی طرف ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ (© Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images)

جاپان میں اس وقت ایک تاریخی تبدیلی آئے گی جب 85 سالہ شہنشاہ آکی ہیٹو اپنے بڑے بیٹے 59 سالہ ولی عہد نارو ہیٹو کے حق میں 30 اپریل کو تخت سے دستبردار ہو جائیں گے۔

جاپان کے شاہی خاندان کا تعلق دنیا کی تسلسل سے قائم طویل ترین بادشاہت سے ہے۔ آکی ہیٹو بادشاہوں کے خاندان میں 125ویں شہنشاہ ہیں۔ اس شاہی خاندان کی بنیاد شہنشاہ جیمو نے 600 عیسوی میں رکھی تھی۔

Man and woman in traditional Japanese formal royal dress (JIJI PRESS/AFP/Getty Images)
آکی ہیٹو اور میچیکو اپریل 1959 میں اپنی شادی کے دن شاہی محل میں تصویر بنوانے کے لیے کھڑے ہیں۔ (© Jiji Press/AFP/Getty Images)

1947ء کے آئین کے مطابق جاپان ایک جدید جمہوری ملک ہے۔ جاپان کا شہنشاہ ملک کا سربراہ ہوتا ہے۔ تاہم اسے کوئی سیاسی اختیار حاصل نہیں ہوتا۔ جنگ کے بعد کے آئین میں اس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ شہنشاہ “ریاست اور عوام کے اتحاد کی علامت ہے۔”

Black-and-white photo of young Japanese woman and man seated at tennis court (© The Asahi Shimbun/Getty Images)
ولی عہد شہزادہ آکی ہیٹو اور اُن کی منگیتر میچیکو شوڈا 1958ء میں ٹوکیو کے لان ٹینس کلب میں۔ اُن دونوں کی پہلی ملاقات ٹینس کورٹ پر ہوئی۔ (© The Asahi Shimbun/Getty Images)

دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان میں مضبوط کاروباری ماحول پروان چڑھا جس کو 1980 کی دہائی میں زبردست فروغ ملا۔ اگرچہ آکی ہیٹو کے دور میں اقتصادی ترقی کی رفتار سست رہی تاہم معیشت مسلسل جدید ٹکنالوجی کی بنیادوں پر استوار ہوتی چلی جا رہی ہے اور جاپان کو مصنوعات سازی میں ایک قائدانہ مقام حاصل ہے۔ امریکہ اور چین کے بعد جاپان کی معیشت آج کی دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ جاپان امریکہ کا سرکردہ تجارتی شراکت کار ہے۔

ولی عہد کی حیثیت سے آکی ہیٹو نے 1959ء میں ایک عام خاتون، میچیکو شوڈا سے شادی کر کے روایت کو بدلا۔ وہ پہلے شہنشاہ یا ولی عہد شہنشاہ تھے جنہیں ایک عام شہری سے شادی کرنے کی اجازت دی گئی۔

آکی ہیٹو کی شہنشاہیت کے 30 سالہ دور میں جاپان نے سماجی رواجوں کو جدت میں ڈھلتی اور خواتین کے کالجوں میں داخلے اور زندگی کے پیشہ ورانہ شعبوں کی روز افزوں تعداد سمیت بہت سی سماجی تبدیلیاں دیکھیں۔

ایک دوسرے کی مدد کرنا

Group of four men standing in front of U.N. building (© Bettmann/Getty Images)
ستمبر 1953 میں شہزادہ آکی ہیٹو نیو یارک میں اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر۔ (© Bettmann/Getty Images)

آکی ہیٹو کے پورے دورِ شہنشاہیت میں جاپان اور امریکہ کے درمیان تعاون سلامتی، معیشت، اور توانائی کے شعبوں کے ایک وسیع سلسلے پر پھیلا ہوا ہے۔ امریکہ اور جاپان کی مسلح افواج نے مشترکی فوجی مشقوں میں حصہ لیا اور جب20011 اور2018 میں جاپان میں قدرتی تباہیاں آئیں تو دونوں ممالک نے مشترکہ امدادی کاروائیاں کیں۔

Four people seated in ornately decorated room (© The Asahi Shimbun/Getty Images)
جنوری 1992 میں ٹوکیو میں صدر جارج ایچ ڈبلیو بش (بائیں سے دوسرے) اور ان کی اہلیہ باربرا (دائیں سے دوسری) شہنشاہ آکی ہیٹو اور ملکہ میچیکو کے ہمراہ۔ (© The Asahi Shimbun/Getty Images)

ایک وقت میں جاپانی شاہی خاندان کے کردار کا روبوٹوں کے کردار کے ساتھ تقابل کرنے والے آکی ہیٹو، شاہی خاندان کو جاپانی عوام کے قریب تر لانے کی اپنی خواہش کا اکثر اظہار کرتے رہے ہیں۔

ایک نئے دور کا آغاز

Teenage girl standing between parents (© Toru Hanai/AP Images)
ولی عہد شہزادہ نارو ہیٹو (بائیں) اور ولی عہد شہزادی ماساکو مارچ 2014 میں ٹوکیو میں اپنی بیٹی آئیکو کی پرائمری سکول کی گریجوایشن کے موقع پر۔ (© Toru Hanai/AP Images)

2016ء میں آکی ہیٹو نے شہنشاہیت سے دست برادری کے موضوع پر بات کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ممکنہ معذوری کے بارے میں ذاتی خدشات کا حوالہ دیا جس پر ‘ڈیٹ” یعنی جاپان کی پارلیمان نے انہیں دستبردار ہونے کی اجازت دے دی۔ 30 اپریل کو جب وہ اپنے دور حکمرانی سے دست بردار ہو رہے ہوں گے تو وہ 200 سال کی تاریخ میں تخت چھوڑنے والے پہلے جاپانی شہنشاہ ہوں گے۔

آکی ہیٹو کی تین دہائیوں پر محیط شہنشاہیت کو جاپان میں “ہائی ایسی” یعنی “امن کے حصول” کا دور کہا جاتا ہے۔ اخبار جاپان ٹائمز کے مطابق جب نارو ہیٹو یکم مئی کو اپنے والد کی جگہ تخت نشین ہوں گے تو وہ “ریوا” نامی دور کا آغاز کریں گے جس کے کم و بیش معانی “خوش قسمتی”  اور “امن” یا “ہم آہنگی” کے ہیں۔

جاپان کی کابینہ کے چیف سیکرٹری یوشی ہیڈے سوگا نے اگلے شاہی عہد کے نام کا اعلان یکم اپریل کو کیا۔ سوگا نے اخباری نمائندوں کو بتایا، “ہم امید کرتے ہیں کہ [“ریوا”] کو [جاپانی] قوم کی وسیع قبولیت اور اِن کی زندگیوں میں گہری اہمیت حاصل ہوگی۔”