یہ کوئی راز نہیں ہے کہ عوامی جمہوریہ چین، ملک کے اندر اور ملک سے باہر چینیوں کی نگرانی کے لیے جدید ترین ٹکنالوجی کو استعمال کرتا ہے اوراس میں اس کی بنیادی نیت چینی کمیونسٹ پارٹی کی طاقت کو کسی بھی ایسے رویے پر سزا دے کر برقرار رکھنے کی ہوتی ہے جسے تخریبی یا خطرناک تصورکیا جاتا ہو۔
اور اگر دوسرے ممالک بھی بیجنگ سے اسی وجہ سے یہ ٹکنالوجی خریدنے لگیں تو پھر کیا ہو گا؟ درحقیقت، پہلے ہی سے ایسا ہو رہا ہے۔ دیگر وجوہات کے علاوہ اس وجہ سے بھی امریکہ کو فائیو جی کے بارے میں بہت زیادہ خدشات لاحق ہیں۔ فائیو جی یعنی ففتھ جنریشن [پانچویں نسل] کی یہ نئی وائرلیس ٹکنالوجی مستقبل کی معیشتوں اور عوامی سہولیات کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
خدشہ یہ ہے کہ بیجنگ شہریوں کو مزید دبانے کے لیے فائیو جی کو استعمال کر سکتا ہے اور یہ کہ دیگر ممالک بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔
People should be able to trust that #5G equipment and software companies will not threaten their security, privacy, IP, or human rights. For nations looking to build out their 5G networks, the @EU_Commission risk assessment named these threats. Now it’s time to keep them safe.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) November 19, 2019
ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ:
وزیر خارجہ پومپیو
عوام کو یہ بھروسہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے کہ فائیو جی کے آلات اور سافٹ ویئر تیار کرنے والی کمپنیاں اُن کی سلامتی، نجی رازداری، آئی پی، یا انسانی حقوق کے لیے خطرہ نہیں بنیں گیں۔ اپنے ہاں فائیو جی کے نیٹ ورک تعمیر کرنے کے متلاشی ممالک کے لیے یورپی یونین کے کمشن کی طرف سے لیے جانے والے خطرات کے جائزے میں اِنہی خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اب انہیں محفوظ رکھنے کا وقت ہے۔
— وزیر خارجہ پومپیو 19 نومبر 2019

ایک نظر دیکھیے کہ کچھ آمرانہ حکومتیں پہلے ہی سے کس طرح اپنے شہریوں کو دبا رہی ہیں اور فائیو جی کس طرح انسانی حقوق کی پامالیوں میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
وینیز ویلا
نکولس مادورو نے جون میں اعلان کیا کہ عوامی جمہوریہ چین وینیز ویلا میں فائیو جی ٹکنالوجی لانے میں مدد کرے گا جس سے اس ناجائز حکومت کے وینیز ویلا کے شہریوں پر کنٹرول میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
وینیز ویلا کے شہریوں کے انٹرنیٹ کے استعمال اور سرگرمیوں کی حکومت پہلے سے ہی نگرانی کرنے کے ساتھ ساتھ سنسر بھی کر رہی ہے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والے انحراف، ضوابط کے تحت قابل سزا ہیں۔
مادورو کے نگرانی کے طریقوں مں سے ایک طریقہ فارلینڈ کارڈ ہے۔ یہ کارڈ، ووٹروں کے شناختی کارڈ اور موبائل ادائیگی کے نظام کا مجموعہ ہے۔ یہ نظام ایک چینی فرم زیڈ ٹی ای کی مدد سے مادورو کی حکومت نے بنایا ہے۔ یہ کارڈ اُن لوگوں کی شناخت کرتا ہے جنہوں نے مادورو کی سوشلسٹ پارٹی کو ووٹ دیئے جس کے صلے میں حکومت انہیں خوراک اور سہولتوں تک رسائی دیتی ہے۔ وہ جنہوں نے مادورو کو ووٹ نہیں دیئے، وہ سماجی بہبود کے پروگراموں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ چین کی طرف سے مہیا کی جانے والی ٹکنالوجی کو اور بنیادی ضروریات کو وینیز ویلا کے عوام کے خلاف مادورو کی طرف سے ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیے جانے کی یہ ایک زندہ مثال ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اطلاع دی ہے کہ مادورو نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کی حکومت گوائیکے پیرو نامی سیٹلائٹ بنانے اور خلا میں چھوڑنے کے لیے قدم اٹھا رہی ہے۔ چین کی مدد سے وینیز ویلا کے پاس آنے والا یہ تیسرا سیٹلائٹ ہوگا۔

ایران
چین کی ٹیلی کمیونیکیشن کی کمپنی برسوں سے ایران کو خدمات فراہم کرتی چلی آ رہی ہے۔ اگر ہوا وے ایران میں اپنی ٹکنالوجی لگانے کی شروعات کر دیتی ہے تو ایرانی حکومت اپنے عوام کی جاسوسی کرنے، اُن پر نظر رکھنے، اور انہیں قابو میں رکھنے کی جدید ترین ٹکنالوجی سے لیس ہو جائے گی۔
فریڈم ہاؤس کی ” نیٹ پر آزادی: سوشل میڈیا کا بحران” کے عنوان سے جاری کی جانے والی سال 2019 کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ کا غلط استعمال کرنے والے بد ترین ممالک میں سے عوامی جمہوریہ چین کے بعد ایران دوسرے نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی حکام “بڑے فخر سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ آن لائن اظہار پر نظر رکھنے کے لیے اس کے پاس 42,000 رضاکاروں کی ایک طاقتور فوج موجود ہے۔”
حال ہی میں جب ایرانی شہریوں نے پٹرول کی قیمتوں کے خلاف احتجاج کیا تو ایرانی حکومت نے 136 گھنٹوں کے لیے انٹرنیٹ بند کیے رکھا۔ حکومت نے بیسیوں اموات سمیت مظالم چھپانے کے لیے انٹرنیٹ کے بلیک آؤٹ کا استعمال کیا۔

امریکہ کے اٹارنی جنرل، ولیم بار نے 13 نومبر کو وفاقی مواصلاتی کمشن کے نام ایک خط میں لکھا، “ہوا وے اور زیڈ ٹی ای پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان انتہائی نازک لمحات میں … ہمیں یہ عندیہ نہیں دینا چاہیے کہ ہوا وے اور زیڈ ٹی ای ہماری اجتماعی سلامتی کے علاوہ کوئی اور چیز بھی ہیں۔”