سمارٹ فون کی بیٹریاں، بچوں کے پالنے، ایئر بیگ، ٹائر، کھلونے، مکھن، چاکلیٹ، فریز کیے ہوئے ہیمبرگر، آتشبازی کا سامان، ہوور بورڈز۔
امریکہ میں اور دوسرے ملکوں میں صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے قائم شدہ اداروں کی مدد سے، یہ تمام اور ہزاروں دیگر اشیاء، مختلف قسم کے خطرات کی بنا پر واپس طلب کی جاتی رہیں ہیں۔
بعض چیزوں کی وجہ سے — جیسے بیٹریوں والے موبائل فون جن میں آگ لگ سکتی ہے یا گاڑیوں میں لگے ہوئے ایئر بیگ جو دھماکے سے پھٹ سکتے ہیں — اخباروں میں شہ سرخیاں لگ جاتی ہیں اور پوری دنیا میں پریشانی پھیل جاتی ہے۔ گو کہ بعض دوسری چیزوں میں نقائص کی خبر بہت کم لوگوں تک پہنچتی ہے لیکن پھر بھی ان کے بارے میں کارروائی شروع ہو جاتی ہے جس سے انہیں صارفین کے لیے زیادہ محفوظ بنانے کے عمل کا آغاز ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات کسی ایک ملک میں کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے اشیاء تیار کرنے والوں پر دباؤ پڑتا ہے کہ وہ اس ملک سے متنازعہ چیز کو واپس لے لیں۔ اگر وہ کمپنی ازخود دوسرے ملکوں سے وہ چیز واپس نہیں لیتی تو ایسی صورت میں دوسرے ملک بھی اسے واپس لینے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

امریکہ میں، واپس لی جانے والی چیزوں کی تعداد سینکڑوں میں ہو یا لاکھوں میں، چیزوں کی واپسی کو عام طور سے “رضاکارانہ” ہی کہا جاتا ہے کیوں کہ کمپنی صارفین کی حفاظت کو یقینی بنانے والے سرکاری عہدیداروں کے ساتھ ان چیزوں کو ٹھیک کرنے پر پہلے سے ہی رضامند ہو چکی ہوتی ہے۔
کنزیومر پروڈکٹ سیفٹی کمیشن [ صارفین کے استعمال میں آنے والی اشیاء کو محفوظ بنانے کے بارے میں کمیشن] کے دائرۂ اختیار میں 10,000 سے زیادہ چیزیں آتی ہیں۔ 2015 میں اس کمیشن نے 410 اشیاء کی واپسی کی نگرانی کی۔ یہ سب چیزیں رضاکارانہ طور پر واپس لی گئیں۔ کمیشن کے ترجمان سکاٹ وولفسن کہتے ہیں، “ہمیں اس بات پر بڑا فخر ہے۔” یہ ادارہ کسی چیز کی لازمی واپسی کے لیے کارروائی تو کر سکتا ہے، لیکن اگر کوئی کمپنی پہلو تہی کرنا چاہے، تو اس تنازعے کو عدالت میں طے کرنے میں ایک سال یا اس سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے اور اس دوران وہ ناقص چیز مسلسل فروخت ہوتی رہتی ہے۔
بعض دوسری وفاقی ادارے مارکیٹ کے دوسرے شعبوں پر نظر رکھتے ہیں۔
فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن [خوراک اور ادویات کا ادارہ] دواؤں اور زیبائش کے سامان کی واپسی اور کھانے پینے کی بیشتر اشیاء کی واپسی کا ذمہ دار ہے۔ امریکہ کا محکمۂ زراعت گوشت، مرغیوں اور انڈوں سے متعلق امور پر نظر رکھتا ہے۔
گاڑیوں کی واپسی کی ذمہ داری نیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن [قومی شاہراہوں پر محفوظ ٹریفک کے ادارے] کی ہے۔ وفاقی ویب سائٹ recalls.gov کے ذریعے، صارفین کی تمام ہاٹ لائنز سے رابطہ رکھا جاتا ہے۔
اگرچہ صارفین بھی مسائل کی اطلاع دے سکتے ہیں، تاہم عام طور پر کمپنیاں خود ہی بیشتر نقائص کے بارے میں کمیشن کو مطلع کر دیتی ہیں۔
ایک مشکل یہ ہے کہ عام لوگ ان نقائص پر توجہ نہیں دیتے اور خراب اشیاء کو مرمت یا تبدیل کرنے کے لیے خود لے کر نہیں آتے۔ سرکاری ادارے صارفین کو باربار پوسٹ کارڈوں کے ذریعے اس بارے میں بتاتے رہتے ہیں۔ وولفسن کا ادارہ اب ٹوئٹر، بلاگز اور سوشل میڈیا کی دوسری سائٹوں پر اشیاء کی واپسی کے نوٹس بھیجتا رہتا ہے۔ ان کے ادارے کا عملہ ای بے، علی بابا اور ای کامرس کی دوسری سائٹوں پر نظر رکھتا ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ واپس طلب کی گئی ناقص اشیاء کہیں ان ویب سائٹوں پر تو نہیں فروخت کی جا رہیں۔ اس سب کچھ کے علاوہ یہ ادارہ صارفین کو ایک ٹیلی فون نمبر فراہم کرتا ہے جس پر صارفین فون کرکے ناقص چیزوں کی اطلاع دے سکتے ہیں۔