بازار میں پھولوں کی دکان سے لے کر کسی گیراج میں شروع کی جانے والی ٹکنالوجی کی نئی کمپنی تک، مفت اور آزاد انٹرنیٹ کی وجہ سے کسی بھی کاروبار کے کامیاب ہونے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔
جب 1990 کی دہائی میں انٹرنیٹ تشکیل پا رہا تھا تو امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر اور ری پبلیکن پارٹی کی اکثریت والی کانگریس، دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امریکہ کی پالیسی یہ ہوگی کہ “انٹرنیٹ کے لیے موجود اُس متحرک اور آزاد مسابقتی مارکیٹ کو محفوظ رکھا جائے … جو وفاقی یا ریاستی بندشوں سے آزاد ہو۔” کسی آزاد مسابقتی مارکیٹ کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ حکومت کی کم از کم مداخلت کا باہمی اتفاق سے طے پانے والا یہ اصول، آج بھی سچا ہے۔ حکومت کے حالیہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس اصول کے تحت 2017ء میں 453.5 ارب ڈالر کی مالیت کی اشیاء اور خدمات کی تجارت کرنے میں مدد ملی۔
ایک امریکی حمایتی گروپ، فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی آزادی مسلسل سات برسوں سے زوال کا شکار ہے۔ مثال کے طور پر دنیا کے انٹرنیٹ زیادہ استعمال کرنے والے 65 ملکوں کی آبادی میں ایران تقریباً سب سے نیچے یعنی 62ویں نمبر پر ہے۔ وہاں کی حکومت نے مقبول آن لائن اپلی کیشنوں [ایپس] سے کاروباری منتظمین کو محروم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس سے منافعے کم ہو سکتے ہیں یا وہ ہزاروں چھوٹے کاروبار بند ہوسکتے ہیں جن کا انحصار ایپس پر ہے۔
مقبول ایپس میں رکاوٹ کیوں ڈالی جاتی ہے؟
ایران میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے ہر پانچ افراد میں سے ایک کے پاس ٹیلی گرام ہے۔ ٹیلی گرام ایک ایسا ایپ ہے جو وہاں کے لوگ خبروں تک رسائی حاصل کرنے، دوستوں سے بات چیت کرنے اور اپنے کاروبار چلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مگر یہ کاروبار اب مشکلات کا شکار ہیں۔ 30 اپریل کو ایرانی عدلیہ نے اپنے شہریوں کے اس مقبول ترین ایپ کو بند کردیا ہے جس سے کروڑوں لوگ متاثر ہوں گے۔ (اقوام متحدہ کی تنظیم، انٹر نیشنل ٹیلی کمیونیکشن یونین کے مطابق، ایران کی آٹھ کروڑ کی آبادی میں سے اس وقت ساڑھے چار کروڑ ایرانیوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔)
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایرانی حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندیاں لگائی ہیں۔ حکومت مخالف مظاہروں میں لوگوں کی شرکت کو روکنے کی خاطر حکام نے ٹیلی گرام اور فوٹو شیئرنگ ایپ انسٹا گرام کو دسمبر کے اواخر سے جنوری کے وسط تک بند کر دیا تھا۔ آزادی اظہار کی آزادی پر اس حملے کا ایک اور اثر بھی پڑتا ہے یعنی لاکھوں ایرانیوں کے روزگاروں میں تعطل پیدا ہوجاتا ہے۔
ایران کی وزارت مواصلات کے مطابق ایران میں 180,000 گھرانوں کا انحصار آن لائن کاروباروں پر ہے۔ ایران میں ایپ تیار کرنے والے عباس باغبان نے خبروں کی ویب سائٹ “ٹرینڈ” کو بتایا کہ ٹیلی گرام کی سائٹ انٹرنیٹ کے سٹور کے طور پر بھی کام کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، “ان ایپس تک رسائی کو روکنے کا نتیجہ بالآخر اِن کے ذریعے کاروبار کرنے والوں کے روزگاروں کے ختم ہونے کی صورت میں نکلے گا۔” اُن کے اندازے کے مطابق ایران میں دس لاکھ افراد آن لائن کیے جانے والے کاروباروں سے پیسے کماتے ہیں۔
محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوآرٹ نے اس سال کے اوائل میں کہا، “جب کوئی ملک سوشل میڈیا پر پابندیاں لگاتا ہے تو ہم بس ایک ہی سوال پوچھتے ہیں: ‘آپ کس چیز سے ڈر رہے ہیں۔'”