صدارتی امیدوار بہت سے وعدے کرتے ہیں۔ جب جیتنے والا اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیتا ہے، تو اس کی وعدے پورے کرنے کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے۔
امریکی آئین کے تحت، صدر کے اختیارات خاصے وسیع ہوتے ہیں۔ لیکن مقننہ اور عدلیہ کی شاخیں بھی — یعنی کانگریس اور سپریم کورٹ کی سربراہی میں کام کرنے والی وفاقی عدالتیں — خاصی بااختیار ہوتی ہیں۔ آئین میں پابندیوں اور توازن کے نظام کے تحت ان کے اختیارات کو ایسے متناسب طریقے سے تقسیم کیا گیا ہے جس سے حکومت کی کسی بھی شاخ کو بہت زیادہ طاقتور بننے کی روک تھام ہوتی ہے۔
جارج ٹاؤن کے آئینی مرکز کے سربراہ اور قانون کے پروفیسر، رینڈی ای بارنیٹ کا کہنا ہے، “سیاسی مہم کی گرما گرمی میں جو کچھ کہا جاتا ہے، اسے حکومت کی ترجیحات سامنے آنے پر، اکثر اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔”
نئے صدر کا ایجنڈا کس حد تک حقیقت کی شکل اختیار کرے گا، اس کے طے کرنے میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔
پہلی چیز تو یہ ہے کہ کیا صدر اور کانگریس کے دونوں ایوانوں — یعنی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان — میں ایک ہی پارٹی کو اکثریت حاصل ہے۔ صدر اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کی ان کے عہدِ صدارت کے صرف پہلے دو برسوں میں ہی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت تھی۔ ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی صدارت کا آغاز اسی طرح کی فوقیت سے کریں گے۔ اس کے باوجود، سینیٹ کے ضابطوں کے تحت بعض حالات میں واضح اور موئثر اکثریت ضروری ہوتی ہے۔
اختیارات پر پابندیوں اور توازن کا نظام
“سیاسی مہم کی گرما گرمی میں جو کچھ کہا جاتا ہے، اسے حکومت کی ترجیحات سامنے آنے پر، اکثر اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔”
صدر کے پاس از خود بہت سے کام کرنے کے آئینی اختیارات نہیں ہیں۔ چند مثالیں یہ ہیں:
- پیسہ خرچ کرنا۔ صدر بجٹ تجویز کرتے ہیں مگر کانگریس سے اس کی منظوری ضروری ہے۔ اور ٹیکس عائد کرنے کا اختیار صرف کانگریس کو ہے۔ اگر صدر کی بعض تجاویز کے لیے پیسہ ضروری ہے، تو انہیں کانگریس سے اس کی منظوری لینا ہوگی۔
- قوانین کی منسوخی۔ صدر کسی ایسے قانون کو جو انہیں پسند نہیں ہے، یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کر سکتے۔ چونکہ وہ قانون کانگریس نے منظورکیا ہوتا ہے، اس لیے اسے صرف کانگریس کی طرف سے ایک اور قانون کی منظوری سے ہی، منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
- تقرریاں: صدر انتظامی ایجنسیوں کے سربراہان کا اور دوسرے اعلیٰ عہدے داروں کا تقرر کرتے ہیں۔ وہ سپریم کورٹ کے ججوں سمیت، وفاقی ججوں کو نامزد کرتے ہیں۔ لیکن سینیٹ کی طرف سے ان کی نامزدگیوں کی توثیق لازمی ہے۔ اگرچہ 1789ء سے اب تک محکموں کے 2 فیصد سے بھی کم سربراہان کو مسترد کیا گیا ہے، تاہم سپریم کورٹ کے ججوں کے عہدے کے لیے نامزد کیے جانے والے تقریباً ایک چوتھائی افراد سینیٹ کی توثیق حاصل نہیں کر سکے — یعنی ان کی نامزدگیوں کو مسترد کر دیا گیا ہے، واپس لے لیا گیا ہے یا نامنظور کر دیا گیا۔
اگر کوئی صدر، یہاں تک کہ کانگریس بھی، ایسا اختیار استعمال کرنے کی کوشش کرے جو اس کے پاس نہیں ہے، تو عدلیہ کی شاخ اس کی کارروائیوں کو غیر آئینی قرار دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، 1952ء میں، سپریم کورٹ نے صدر ہیری ایس ٹرومین کی نجی ملکیت والی فولاد کی ملوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کو مسترد کردیا۔ صدر کے اس اقدام کا مقصد کوریا میں اس وقت جاری جنگی کاروائیوں میں مدد کرنا تھا۔
صدارتی اختیار
ان آَئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے بھی، صدور کے پاس اپنے ایجنڈے کی منظوری کے بہت سے ذرائع ہوتے ہیں۔ وہ عملے کے بہت سے لوگوں کا تقرر کرتے ہیں جن کے لیے سینیٹ کی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ توثیق کے بعد، صدر وفاقی بنچ پر اسامیوں کو پُر کرنے کے لیے نئے جج نامزد کرتے ہیں۔ اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ، عدلیہ کی شاخ صدر کے عمومی خیالات سے زیادہ ہمدردی کا انداز اپنا سکتی ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ توثیق کے بعد، صدر انتظامی شاخ کی ایجنسیوں کے لیے سربراہوں کا تقرر کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سی ایجنسیاں ایسے ضابطے جاری کرتی ہیں جن سے ملک کی معیشت اور زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
صدر ایسے ضابطے جاری کر سکتے ہیں جنہیں ایگزیکٹیو آرڈرز یعنی “انتظامی احکامات” کہا جاتا ہے۔ وفاقی ایجنسیوں پر لازم ہے کہ وہ ان کی عام قانون کی طرح پابندی کریں۔ ان کے لیے کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن کسی ایک صدر کے انتظامی احکامات کی پابندی ان کے جانشینوں پر لازم نہیں ہوتی، اور ایسا ہوچکا ہے کہ نئے صدر نے اپنے پیشرو صدر کے احکامات کو منسوخ کردیا ہو۔
صدور کو وہ سہولت میسر ہوتی ہے جسے صدر تھیوڈور روزویلٹ نے “bully pulpit” کا نام دیا تھا — یعنی ایسی صلاحیت جس کو استعمال کرتے ہوئے صدر، رائے عامہ سے براہِ راست مخاطب ہوکر، اسے حسبِ ضرورت تبدیل کرکے، امریکی عوام کی خواہشات کو کانگریس کے ارکان کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
بارنیٹ کہتے ہیں کہ صدر کے اختیار پر ایک سب سے بڑی پابندی وہ دشواری ہے جو انہیں اپنی ترجیحات کو قائم رکھنے میں پیش آتی ہے۔ انھوں نے کہا، “صدر جو کچھ کر سکتے ہیں اس کی ایک حد ہے۔ بالآخر تمام صدور کا جوش و جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔”