امریکہ کے نئے صدر کے انتخاب سے نئے تصورات اور نئے لوگ واشنگٹن آتے ہیں مگر ایک طبقے کے لوگ مسقل طورپر موجود رہتے ہیں: وہ ہیں وفاقی ملازمین جو اس بات سے قطع نظر کہ وائٹ ہاؤس میں کون ہے وہ امور حکومت کے بدستور چلتے رہنے کو یقینی بناتے ہیں۔

دوسرے تمام نومنتخب صدور کی طرح، ڈونلڈ ٹرمپ ایسے لوگوں کو لےکر آئیں گے جو ان کے خیال میں ان کے تصورات کو بہترین طریقے سے عملی جامہ پہنا سکیں گے۔ حلف برداری کے فوری بعد نئی تقرریوں والے 4,000 افراد، پچھلی انتظامیہ کے لائے ہوئے لوگوں کی جگہ لینا شروع کردیں گے۔ لیکن جو لوگ تبدیل نہیں ہوتے ان میں حکومت کے مستقل ملازمین شامل ہیں۔ وہ ایک انتظامیہ سے دوسری انتظامیہ کے درمیان تسلسل فراہم کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پارٹنرشپ فار پبلک سروس کے صدر میکس سٹائیر نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا، “حقیقت یہ ہے کہ مستقل ملازمین کی افرادی قوت، ایک ایسی مسلسل لڑی ہے جو ایک انتظامیہ کو دوسری انتظامیہ میں پروتی ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ کا م کس طرح ہوتا ہے اور ذمہ داریاں کس طرح  پوری کی جاتی ہیں۔”

امریکہ کو اپنے ہاں اقتدار کی پرامن منتقلی پر فخر ہے۔ نومبر میں نئے صدرکے منتخب ہونے سے بھی چھ ماہ  قبل، تمام وفاقی ایجنسیوں میں نئی انتظامیہ کے لیے تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ ہر ایجنسی میں اس کام کا ذمہ دار ایک مستقل سرکاری ملازم ہوتا ہے، جسے “سول سروس ایگزیکٹو” کہا جاتا ہے۔

نیو یارک یونیورسٹی میں پبلک سروس کے پروفیسر پال لائیٹ کہتے ہیں، “صدارتی تقرری کے تحت آنے والے کسی بھی نئے شخص کو اُن سینیئر ایگزیکٹیوز سے بات کرنا ہوگی جو پالیسی کا نفاذ کرتے ہیں اور معلومات فراہم کرتے ہیں۔”

سرکاری ملازمین اس وقت تک خالی ہونے والے عہدوں پر عبوری طور پر کام کرتے رہتے ہیں جب تک سیاسی تقرریوں کے تحت آنے والے نئےعہدے دار اپنے مناصب سنبھال نہیں لیتے۔ آنے والا صدر جو 4,000 سیاسی تقرریاں کرتا ہے، ان میں سے 1,200 سے زیادہ کے لیے سینیٹ کی منظوری درکار ہوتی ہے۔ یہ عمل طویل بھی ہو سکتا ہے۔ بعض محکموں میں سیاسی تقرریوں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی ہے، جیسا کہ  ٹرانسپورٹ کے محکمے میں (88)، جبکہ دوسرے محکموں میں سیاسی تقرریوں کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے، جیسا کہ محکمہ انصاف (339) اور محکمہ خارجہ (401) ۔

سرکاری ملازمین اپنے اپنے محکموں میں سیاسی تقرریوں کے تحت آنے والے نئے عہدے داروں کی اپنے کام سے تیزی سے مانوس ہونے میں مدد بھی کرتے ہیں۔ لائیٹ کا کہنا ہے کہ نئے عہدے داروں  کو چاہیے کہ وہ “اس محکمے یا ادارے کے ساتھ جلد رابطہ قائم کریں جہاں وہ عنقریب ذمہ داریاں سنبھالنے والے ہیں۔ دیکھیں ‘کون کون سے کام تکمیل کے مراحل میں ہیں؟’ اور ‘وہ کون سے بڑے مسائل ہیں جن سے ہمیں نمٹنا ہوگا ؟’ میں سمجھتا ہوں کہ سینیئر ایگزیکٹوز نہایت قابل احترام اور صاف گو ہوتے ہیں اور اُن  کے پاس تمام معلومات ہوتی ہیں۔”

خواہ یہ کام ایک درجہ اوپر جاکرعبوری طور پر کسی ایجنسی کی قیادت کرنا ہو یا سیاسی تقرریوں کے تحت آنے والے نئے عہدے داروں کی پہلے دن سے موثرطریقے سے فعال ہونے میں مدد کرنا ہو، سرکاری ملازمین صدر کی تبدیلی کے عبوری مرحلے میں تسلسل کے ضامن ہوتے ہیں۔

لائیٹ کا کہنا ہے “ان کے پاس اس بارے میں بہت زیادہ معلومات ہوتی ہیں کہ کام کس طرح ہوتے ہیں اور وہ دوسروں کی رہنمائی کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔”