
ایرانیوں کے وہ ہجوم جو قاسم سلیمانی کی سرکاری سرپرستی اور خصوصی بندوبست والی تدفین کے لیے باہر نکلے ہو سکتا ہے کہ وہ ایسے نہ ہوں جیسے کہ وہ دکھائی دیتے ہیں۔
ممتاز ایرانی سر گرم کارکن مسیح علی نژاد، واشنگٹن پوسٹ میں لکھتے ہوئے قارئین کو یاد دلاتی ہیں کہ ملاؤں کے ایران میں صرف حکومت نواز اجتماعات کی اجازت ہے۔ علی نژاد کہتی ہیں، “اسلامی جمہوریہ میں میڈیا پر بہت زیادہ کنٹرول ہے۔ لہذا ریاست کے تمام اسباب اور وسائل کو تدفین کا جلوس نکالنے کے لئے استعمال کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔”
اس کے برعکس حکومت ہر وہ کام کرتی ہے جو وہ کر سکتی ہے تاکہ وہ انٹرنیٹ کی سرگرمیوں اور میڈیا کے وسیع پیمانے پر حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاجوں کے بارے میں خبریں دینے کو دبا سکے اور قتل ہونے والے مظاہرین کے اہل خانہ کے اپنے مقتولین کا سوگ منانے کے حق کا انکار کر سکے۔
علی نژاد کو سوشل میڈیا پر سلیمانی کی مذمت کرنے والے ہزاروں پیغامات موصول ہوئے ہیں۔ علی نژاد ان کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، “کچھ لوگ اس (سلیمانی) کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے ڈالے جانے والے دباؤ کی شکایت کر رہے ہیں۔”
اس بات پر آسانی سے یقین بھی آتا ہے۔ بہت سے ایرانیوں میں حکمرانوں کے خلاف غصہ اور ناراضگی پائی جاتی ہے کیونکہ اِن حکمرانوں نے حال ہی میں ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں کی جانے والی وحشیانہ کاروائیوں میں سیکڑوں افراد کو ہلاک کیا اور ہزاروں کو جیلوں میں ڈالا۔ مظاہرین نے دیگر مسائل کے علاوہ، مذہبی حکومت کی مسلسل بدعنوانی اور ایسی آلہ کار ملیشیاؤں کے متعلق جنہیں سلیمانی کی حمایت حاصل تھی، سوال اٹھانے کے ساتھ ساتھ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ – قدس فورس (آئی آر جی سی-کیو ایف) کے بارے میں بھی سوال اٹھائے۔
پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ – قدس فورس کے 20 برس سے زائد عرصے تک کمانڈر رہنے والے، سلیمانی نے فرقہ وارانہ تشدد کے بیج بوئے اور دہشت گردی برآمد کی۔ وہ عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی جانب سے اتحادیوں کے ہوائی اڈے پر حملہ کرنے، جس میں ایک امریکی ٹھیکیدار ہلاک ہوا، اور بغداد میں امریکی سفارتخانے پر دھاوا بولنے کے بعد، 2 جنوری کو بغداد میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، سلیمانی کی آئی آر جی سی – کیو ایف سمیت حکومت کی سکیورٹی فورسزنے، وحشیانہ کاروائیوں میں 1500 سے زیادہ افراد کو ہلاک اور کم از کم 7000 کو جیل بھیج دیا۔
لاشوں کی واپسی کے لیے کچھ خاندانوں سے حکومت نے پیسے بھی وصول کیے اور مقتول مظاہرین کے لواحقین پر عوامی سطح پرنمازِ جنازہ پر پابندی لگائی۔ مثال کے طور پر، حکومت نے مظاہرہ کرنے والے 27 سالہ پویا بختیاری کے رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا تاکہ اس کے اہل خانہ کو عوامی سطح پر اِس کی یعنی پویا بختیاری کی تدفین کرنے سے روکا جا سکے۔
علی نژاد لکھتی ہیں، “میں اور دیگر لوگ کئی سالوں سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ ملک میں موجودہ جابرانہ حالات زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتے اور یہ کہ زیادہ مظاہرے شروع ہونگے۔ ہم ٹھیک تھے۔ اور میں ایک بار پھر یہ کہتی ہوں: کوئی (تمہیں) بے وقوف نہ بنائے۔ ایران میں مزید حکومت مخالف مظاہرے ہوں گے۔”
مسیح علی نژاد وائس آف امیریکا کی فارسی سروس کے لیے کام کرتی ہیں۔