جدید ٹیکنالوجی کی بدولت امریکہ کی قدرتی گیس کی برآمد، درآمد سے بڑھ گئی

چھ دہائیوں میں پہلی مرتبہ، امریکہ اپنی درآمد سے زیادہ قدرتی گیس برآمد کرے گا۔ اس توازن کی بڑی وجہ امریکہ کی تیار کردہ وہ ٹکنالوجیاں ہیں جنہوں نے توانائی کے شعبے میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔

اس سال کے اوائل میں صدر ٹرمپ نے کہا، “امریکہ اعلٰی معیار اور کم قیمت توانائی کے وسائل اور ٹکنالوجیوں کی برآمد میں ایک وفادار اور قابل اعتبار شراکت دار ثابت ہوگا۔”

دو شعبوں میں جدت طرازیوں نے امریکہ کو قدرتی گیس اور وہ ایندھن  برآمد کرنے والا ملک بننے میں مدد کی جو عام طور پر گھروں کو گرم رکھنے، بجلی پیدا کرنے اور صنعتی پیداوار کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

‘شیل گیس کا امریکی انقلاب’

اولاً، گزشتہ 10 برسوں میں نجی شعبے میں امریکہ کے محکمہ توانائی کی مدد سے تیار کی جانے والی تکنیکوں کا وسیع استعمال کیا گیا۔ ان ٹکنالوجیوں نے کمپنیوں کو ماضی میں نہ نکالی جا سکنے والی گیس اور شیل چٹانوں سے گیس نکالنے کے قابل بنایا۔ یہ غیر روائتی طریقے زیریں زمین کی افقی کھدائی اور ہائیڈرالک توڑپھوڑ [معائع مواد کے دباؤ سے زیرزمین سطح کو توڑنا] یا عام طور پر زمین کی اندرونی سطح کو توڑنا کہلاتے ہیں۔

اِن تکنیکوں نے اُس انقلاب کے لانے میں مدد کی جسے”شیل گیس کے امریکی انقلاب” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حالیہ ترین دستیاب تجزیات کے مطابق، اس انقلاب نے امریکی کمپنیوں کو 2007 سے 2015 کے درمیان، شیل گیس کی پیداوار کو 11 گنا سے زیادہ بڑہانے کے قابل بنا دیا۔

اب جبکہ امریکہ اُس سے زیادہ توانائی پیدا کر رہا ہے جتنی کہ وہ استعمال کرتا ہے، تو اس سے ملک کا درآمدات پر انحصار کم ہوگیا ہے اور توانائی کی سلامتی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، امریکہ میں پیدا ہونے والی قدرتی گیس کا 95 فیصد امریکہ میں ہی استعمال ہوجاتا ہے جس کے بعد تقریباً پانچ فیصد گیس برآمد کے لیے بچ جاتی ہے۔

قدرتی گیس کی نقل و حمل کا ایک نیا طریقہ

ایک اور تبدیلی کا تعلق اس طریقے سے ہے جس سے توانائی کی کمپنیاں صارفین تک قدرتی گیس پہنچاتی ہیں۔

ماضی میں، گیس پیدا کرنے والی کمپنیاں صرف پائپ لائنوں کے ذریعے گیس پہنچایا کرتی تھیں۔ مگر آج، اگر قدرتی گیس کو مائع شکل میں تبدیل کر دیا جائے تو اسے بحری جہاز سے دنیا کے کسی  بھی کونے میں پہنچایا جا سکتا ہے۔ مائع قدرتی گیس کو جسے عام طور پر ایل این جی کہا جاتا ہے، ٹھنڈا  کیا جا سکتا ہے اور مخصوص ٹینکروں کے ذریعے ہر اُس مقام تک پہنچایا جا سکتا ہے جہاں ایل این جی کی سہولتیں دستیاب ہوں۔ یہ ملکوں کی توانائی کی سلامتی کے لیے ایک بہت بڑی بات ہے۔

مثال کے طور پر 2014ء تک، لیتھوینیا کی قدرتی گیس کی فراہمی کا انحصار پائپ لائن سے سپلائی کرنے والے صرف ایک ذریعے پر تھا۔ یہ ذریعہ روس کی گیز پروم نامی بڑی کمپنی تھی اور یہ کمپنی مارکیٹ میں اپنی مرضی کے دام وصول کر سکتی تھی۔ مگر ایک بار جب لیتھوینیا نے ایل این جی درآمد کرنے کی اہلیت حاصل کرلی تو پھر یہ ملک دنیا میں کہیں سے بھی قدرتی گیس خریدنے کے قابل ہو گیا۔

لیتھوینیا میں 2014ء سے لے کر 2015ء تک  قدرتی گیس کی قیمتوں میں 20 فیصد کمی آئی۔ بہتر قیمتوں سے صارفین کو مدد ملی اور توانائی کی ترسیل کے مختلف ذرائع نے اس بالٹک ریاست کی سلامتی کو بہت زیادہ بڑھاوا دیا۔

کولمبیا یونیورسٹی میں توانائی کے ایک ماہر، جیسن بورڈوف کا کہنا ہے، “امریکہ کی طرف سے ایل این جی کی بڑھتی ہوئی ترسیل کا مطلب، اور زیادہ مسابقت، مقدار اور ترسیل میں تنوع، گیس کی عالمی منڈیوں کو زیادہ لچک دار، بہتر اور محفوظ بنائے گا۔ گیس کی تجارت تیل کی طرح ہوگی جس کا مطلب یہ ہے کہ مارکیٹ کی طاقتیں، قیمت اور ترسیل کا رُخوں کا تعین کریں گی۔”

دنیا بھر میں ایل این جی برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک قطر ہے جو دنیا کی مجموعی سپلائی کا تقریباً 30 فیصد مہیا کرتا ہے۔ ایل این جی برآمد کرنے والے دیگر بڑے ممالک  میں، آسٹریلیا، ملائیشیا، نائجیریا اور انڈونیشیا شامل ہیں۔ 2016ء میں امریکہ نے دنیا کی ایل این جی سپلائی کا 1.1  فیصد برآمد کیا۔ جیسے جیسے امریکی کمپنیاں ایل این جی کی برآمد کے لیے ضروری بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرتی جائیں گی تو اس مقدار میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔