
جمہوری اقوام ہانگ کانگ میں جمہوری طور پر منتخب چار قانون سازوں کی چینی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھوں نااہلی کو غلط قرار دے رہی ہیں۔
امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، اور برطانیہ کی حکومتوں نے سی سی پی کی طرف سے 11 نومبر کی قانون سازوں کی نااہلی کو ہانگ کانگ کی خودمختاری کو قائم رکھنے کی حکومت کی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور وعدوں کی “صریحی خلاف ورزی” قرار دیا ہے۔
اُن کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے، “نااہلی کے قوانین، ناقدانہ آوازوں کو خاموش کرانے کی ایک مستقل مہم کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔ ہم چین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مشترکہ اعلامیے اور بنیادی قانون کے تحت ہانگ کانگ کے عوام کو حاصل اپنے نمائندے منتخب کرنے کے حقوق کو نقصان پہنچانا بند کرے۔”
اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ، 1984ء کے چین اور برطانیہ کے مشترکہ اعلامیے کے تحت، عوامی جمہوریہ چین نے ہانگ کانگ کی “اعلٰی درجے کی خود مختاری” اور آزادیوں کا وعدہ کیا تھا۔ بنیادی قانون “ایک ملک، دو نظاموں” کے اصول پر عمل درآمد کراتا ہے اور ہانگ کانگ میں مقامی اداروں کی حمایت کرتا ہے۔
اِن پانچ جمہوری ممالک نے ہانگ کانگ کی جن آزادیوں کی سی سی پی کی حالیہ خلاف ورزیوں کی جانب توجہ مبذول کرائی اُن میں ستمبر میں ہونے والے قانون ساز کونسل کے انتخاب کا التوا اور قانون ساز کونسل کے پانچ موجودہ ممبروں کی حالیہ گرفتاریاں بھی شامل ہیں۔

منتخب شدہ عہدیداروں کو نااہل قرار دینا سی سی پی کی اُن آزادیوں کے خلاف دُور رس کاروائیوں کا حصہ ہیں جن کا اس نے ہانگ کانگ کے سلسلے میں وعدہ کر رکھا ہے۔ ہانگ کانگ کو سی سی پی کی حکمرانی کے مزید ماتحت لاتے ہوئے جب 30 جون کو پارٹی نے قومی سلامتی کا ایک قانون نافذ کیا، اس وقت سے چینی حکام جمہوریت کے حامیوں کو گرفتار کر رہے ہیں، نامہ نگاروں کے خلاف کاروائیاں کر رہے ہیں، اور قانون ساز کونسل کے انتخابات کے لیے کم از کم ایک درجن امیدواروں کو نااہل قرار دے چکے ہیں۔
ابھی حال ہی میں، 11 نومبر کو منظور کی جانے والی پی آر سی کی نام و نہاد “حب الوطنی” کی قراداد نے ہانگ کانگ کی بیجنگ نواز حکومت کو ایسے قانون سازوں کو نااہل قرار دینے کا اختیار دیا ہے جو “آزادی کی تشہیر یا حمایت کرتے ہیں،” “یا غیر ملکی مداخلت کا کہتے ہیں،” یا “دیگر ایسی سرگرمیوں” میں حصہ لیتے ہیں جو “قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔”
ہیومن رائٹس واچ تنظیم کے مطابق، مبہم الفاظ میں بیان کیے گئے اس طرح کے معیارات کی پاسداری کو ضروری قرار دینے سے قانون کی حکمرانی اور قانون سازوں کے اظہار رائے کے حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ نیا قانون “ہانگ کانگ کی حکومت کو کسی بھی ایسے قانون ساز کو برطرف کرنے کا یکطرفہ اختیار دیتا ہے جسے یہ حکومت ناپسند کرتی ہو۔”
چار جمہوریت نواز قانون سازوں کو نااہل قرار دینے کے بعد دیگر 15 قانون سازوں نے بھی استغفے دے دیئے۔
ہانگ کانگ کے قومی سلامتی کے قانون کی تیاری اور نفاذ اور خود مختاری اور آزادیوں کے خلاف اقدامات اٹھانے کی بنا پر، امریکہ نے ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لیم سمیت، نومبر میں پی آر سی اور ہانگ کانگ کے عہدیداروں پر پابندیاں لگائیں۔
وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا، “بیجنگ نے ہانگ کانگ کی اُس ساری خود مختاری کو ختم کر دیا ہے جس کا اِس نے وعدہ کیا تھا۔ اس (بیجنگ) نے اُس جمہوری عمل اور اُن قانونی روایات کو بے اثر بنا دیا ہے جو ہانگ کانگ کے استحکام اور اس کی خوشحالی کی بنیادیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک بار پھر، سی سی پی کا حب الوطنی کا گمراہ کن تصور آزادی اور جمہوریت کے مطالبے کا گلا دبانے کا ایک بہانہ بن گیا ہے۔”