نقاب پوش آدمی قاسم سلیمانی کے پوسٹر پر جوتا مار رہا ہے۔ (© AP Images)
بغداد میں نومبر 2019 میں ایران مخالف مظاہرے کے دوران مظاہرہ کرنے والا ایک عراقی، قاسم سلیمانی کی تصویر پر جوتا مار رہا ہے۔ سلیمانی عشروں تک تشدد برآمد کرتا رہا۔ (© AP Images)

2 جنوری کو ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے سینئر ایرانی فوجی جنرل قاسم سلیمانی نے دہشت گردی برآمد کی اور کئی دہائیوں تک فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دی جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔

1998ء کے بعد سے، سلیمانی نے عراق، شام، لبنان، بحرین، یمن اور افغانستان سمیت آدھے درجن ممالک میں دہشت گردی کے حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل پیرا ہونے اور ایرانی حکومت کے آلہ کار جنگجوؤں کو مسلح کرنے میں ایران کی پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ – قدس فورس (آئی آر جی سی – کیو ایف) کی سربراہی کی۔

سلیمانی ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک عراق میں ایرانی حمایت یافتہ دہشت گردوں کو ذاتی طور پر ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ اسلحہ بھی فراہم کرتا رہا۔ اس کے حالیہ ترین منصوبے عراق میں امریکی اتحادی افواج پر حملے تھے، جن میں 31 دسمبر کو سفارت خانے پر حملہ بھی شامل ہے جن کے دوران دیوار پر لکھا گیا: “سلیمانی ہمارے قائد ہیں۔” سلیمانی کی حمایت اور مہلک مدد سے آئی آر جی سی – کیو ایف نے 2003 اور 2011 کے درمیان 600 سے زائد امریکیوں کو نشانہ بنایا اور ہلاک کیا۔

3 جنوری کو وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے سی این این کو بتایا، ” وہ خطے میں ایسی کاروائیاں کرنے کی — جیسا کہ اس نے ایک بڑی کاروائی کے بارے میں بیان کیا — سرگرمی سے سازش کر رہا تھا جو اگر سینکڑوں نہیں تو درجنوں امریکی جانوں کو خطرے میں ڈال سکتی تھی۔ ہمیں علم ہے کہ ایسا ہونا تقریباْ یقینی تھا۔”

امریکہ نے سلیمانی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر 2011ء میں عالمی دہشت گرد نامزد کیا۔ گزشتہ اپریل میں امریکہ نے آئی آر جی سی- کیو ایف کو ایک غیر ملکی دہشت گرد کے طور پر نامزد کرنے کا وہ قدم اٹھایا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی دوسری حکومت کے ایک حصے کو دہشت گرد نامزد کیا گیا ہے۔

ٹوئٹر کی عبارت کا خلاصہ:

 ڈونلڈ جے ٹرمپ:

 جنرل قاسم سلیمانی نے ایک طویل عرصے کے دوران ہزاروں امریکیوں کو یا تو ہلاک کیا یا شدید زخمی کیا اور مزید برآں بہت سوں کو ہلاک کرنے کی سازش تیار کر رہا تھا مگر وہ پکڑا گیا! وہ لوگوں کی حالیہ ایک بڑی تعداد…. سمیت براہ راست اور بالواسطہ لاکھوں لوگوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار تھا۔

 ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک سلیمانی نے عراقی دہشت گردوں کو تربیت دی اور انہیں مسلح کیا۔ اِن دہشت گردوں نے عراقی حکومت کی خودمختاری کو پامال کیا اور اس کے شہریوں کو مستحکم ماحول سے محروم کر دیا۔ اکتوبر کے بعد سے، ہزاروں عراقی مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے اپنے ملک میں ایران کے اثر و رسوخ کی مذمت کی۔

امریکہ کے محکمہ دفاع کے مطابق، سلیمانی نے “پچھلے کئی مہینوں کے دوران عراق میں اتحادیوں کے اڈوں پر کیے جانے والے حملے ترتیب دیے جن میں 27 دسمبر کو ہونے والا حملہ بھی شامل تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں مزید امریکی اورعراقی اہلکار شامل تھے۔”

بیان میں مزید کہا گیا ہے،”جنرل سلیمانی نے اس ہفتے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر ہونے والے حملوں کی بھی منظوری دی۔”

وردیوں میں ملبوس لوگوں میں گھرا قاسم سلیمانی۔ (© Office of the Iranian Supreme Leader/AP Images)
18 ستمبر 2016 کو تہران، ایران میں ایران کی ممتاز قدس فورس کا سربراہ جنرل قاسم سلیمانی (درمیان میں) ایک اجلاس میں شریک ہے۔ (© Office of the Iranian Supreme Leader/AP Images)

سلیمانی نے حال ہی میں عراق، شام اور لبنان کے سفر کیے جن کا مقصد آلہ کار گروہوں کو حملوں کی جن میں عام شہریوں کا ہلاک ہونا معمول کی بات ہے، ہدایات دینا تھا۔ اُس کے یہ سفر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے اس کے بین الاقوامی سفر پرعائد پابندی کی قرارداد کی خلاف ورزی تھے۔

صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا، ” جنرل قاسم سلیمانی نے ایک طویل عرصے کے دوران ہزاروں امریکیوں کو یا تو ہلاک کیا یا شدید زخمی کیا اور مزید بہت سوں کو ہلاک کرنے کی سازش تیار کر رہا تھا۔ اگرچہ ایران کبھی بھی اس کا مناسب طور پر اعتراف نہیں کر سکے گا، مگر ملک کے اندر سلیمانی سے لوگ خوفزدہ تھے اور متنفر تھے۔”