
چار ایسی سرگرم کارکن خواتین سے ملیے جو ایل جی بی ٹی کیو آئی+ کمیونٹی کی حمایت کرتی ہیں اور جنوبی اور وسطی ایشیا میں صنفی امتیاز کے خلاف جدوجہد کر رہی ہیں۔
یہ کارکن آرٹ، قانونی چارہ جوئی اور عوامی خدمت کے ذریعے عالمگیر انسانی حقوق کے دفاع کی ضرورت کے بارے میں بیداری پیدا کر رہی ہیں۔
بھارت: مینیکا گروسوامی اور اروندھتی کاٹجو
مینیکا گروسوامی اور اروندھتی کاٹجو دونوں وکیل ہیں اور اِن دونوں نے ہم جنس پرستی کے خلاف بھارتی قانون کو ختم کرنے کی مہم چلائی۔
2016 میں اِن وکلا خواتین نے ایل جی بی ٹی کیو آئی+ کمیونٹی کے پانچ اراکین کی جانب سے ایک درخواست دائر کی۔ دو سال بعد ان کے تعلقات کو جرم قرار دینے والے 157 سال پرانے قانون کو ختم کر دیا گیا۔ یہ اقدام بھارت کی ایل جی بی ٹی کیو آئی+ کمیونٹی کے اراکین کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔
اِس عدالتی فیصلے سے پہلے خلاف ورزی کرنے والوں کو 10 سال سے لے کر عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی تھی۔
2015 میں اس جوڑے نے ایک ایسے خواجہ سرا مرد کے حق میں ایک قانونی مقدمہ جیتا جسے اس کے والدین نے گھر میں محبوس کر رکھا تھا۔ اب گروسوامی اور کاٹجو ملک میں ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کی وکالت کر رہی ہیں۔
کاٹجو نے کہا، ’’قانونی چارہ جوئی سے میری یہ امید بندھتی ہے کہ میں عملی اور ٹھوس طریقے سے کچھ بدل سکتی ہوں۔”
یہ جوڑا ٹائم رسالے کے 2019 کے 100 بااثر ترین افراد کی فہرست میں شامل تھا۔
کرغزستان: ڈیانا آرسینیوا
ڈیانا آرسینیوا کرغزستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم، ‘ لیبریز’ میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور آرٹ پراجیکٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ یہ تنظیم ایل جی بی ٹی کیو آئی+ کمیونٹی کے خلاف امتیازی سلوک کے مقدمات کے ریکارڈ کو دستاویزی شکل میں محفوظ رکھتی ہے، ملکی اور بین الاقوامی وکالت کا کام کرتی ہے اور کرغزستان میں ایل جی بی ٹی کیو آئی+ کمیونٹیوں کی مدد کرتی ہے۔

2020 میں ‘ آرٹیف’ نامی جارجیا کے پلیٹ فارم کے تعاون سے، آرسینیوا نے ملک کے دارالحکومت بشکیک کے قریب ‘ماؤنٹین آف گریف ایل جی بی ٹی کیو آئی+ میموریل واک’ کے نام سے ایک یادگار بنانے کے لیے ایک یوکرینی آرٹسٹ، میکسم فینوگیف کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اِس یادگار کے ذریعے تشدد کے اُن واقعات کو بیان کیا گیا ہے جو ایل جی بی ٹی کیوآئی+ افراد کے ساتھ پیش آئے۔ میموریل واک کا راستہ اب مستقل شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کا مقصد ایل جی بی ٹی کیو آئی+ افراد کے لیے ہمدردی پیدا کرنا اور اُن کے خلاف تشدد کو روکنا ہے۔
آرسینیوا نے بتایا، “آرٹ پروجیکٹوں کے ذریعے ہم ایک ایسی جگہ بناتے ہیں جہاں پر جاکر لوگ غوروخوض کر سکتے ہیں اور اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں کیونکہ نفرت کا تعلق حقیقی لوگوں سے نہیں بلکہ سیاسی پروپیگنڈے اور نفرت کی ثقافت سے ہے۔”
آرٹ ایسے حساس موضوعات پر بات کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے جن پر ممکن ہے کہ لوگ براہ راست کی جانے والی گفتگو کے دوران بات کرنے پر ہچکچاتے ہوں۔
آرسینیوا کہتی ہیں، “کرغزستان میں ایل جی بی ٹی کیو آئی+ کمیونٹی کے لیے آرٹ کے ذریعے بات چیت کرنا عام طور پر اپنے اظہار کا سب سے محفوظ طریقہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں ذاتی معلومات سے گریز کیا جاتا ہے اور گمنامی کو برقرار رکھا جاتا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ظلم و ستم کے خوف کے بغیر اپنا آپ ظاہر کر سکتی ہے اور اپنی ضروریات، درد اور اپنی حقیقت سے آگاہ کر سکتی ہے۔”
نیپال: بھومیکا شریستھا
خواجہ سرا کارکن بھومیکا شریستھا 2007 سے نیپال میں صنفی اقلیتوں کے حقوق اور سماجی انصاف کی وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے وقت صنفی اقلیت کی شناخت کی تحریک کی قیادت کرنے میں ہاتھ بٹا رہی ہیں جب نیپال کو زبردست سیاسی ہلچل اور ایک نئے جنم کا سامنا ہے۔
I'm thrilled to congratulate transgender rights activist Bhumika Shrestha, who will receive the @StateDept’s Int'l #WomenofCourage Award for her dedication to the LGBTQI+ community in Nepal! This is the 2nd year in a row that a Nepali will win this prestigious award. #IWD2022 pic.twitter.com/w6FVcP911U
— Ambassador Randy Berry (@USAmbNepal) March 8, 2022
شریستھا کی متحرک کوششوں کی بدولت، 2007 میں نیپال کے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ شہریت کی دستاویزات پر لوگوں کی شناخت تیسری جنس کے طور پر بھی کی جا سکتی ہے۔ 2021 کے موسم بہار میں شہریت کی دستاویز کے قانونی جنس کے خانے میں شریستھا اپنی جنس “دیگر” سے عورت میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
اُن کی کوششوں کے باعث انہیں محکمہ خارجہ کی 2022 میں جرائتمند بین الاقوامی خواتین کے ایوارڈ پانے والی خواتین میں شامل کیا گیا۔
شریستھا کو مبارکباد دینے والوں میں 2015 میں ایل جی بی ٹی آئی+ افراد کے انسانی حقوق کے لیے امریکہ کے پہلے خصوصی ایلچی بننے والے نیپال میں [موجودہ] امریکی سفیر، رینڈی بیری بھی شامل تھے۔ یہ عہدہ امریکی حکومت کے ساتھ ساتھ دنیا کی کسی بھی حکومت میں قائم کیا جانے والا اپنی نوعیت کا پہلا عہدہ تھا۔