جنوبی ایشیا میں صاف اور سستی توانائی لانا

امریکہ کی بھارت اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ کی جانے والی شراکت داریوں سے سستی اور صاف توانائی تک رسائی میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ شراکت داریاں  بجلی کی تیزی سے بڑھتی ہوئے مانگ پوری کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔

جنوبی ایشیا تیز ترین رفتار سے ترقی کرنے والا دنیا کا دوسرا خطہ ہے اور آنے والی دہائیوں میں توانائی کی عالمگیر مانگ میں اضافہ کرنے والے اہم خطوں میں سے ایک ہوگا۔

امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) کی قائم مقام مشن ڈائریکٹر، رامونہ الحمزوئی نے بتایا کہ 2040ء تک بجلی کی عالمگیر مانگ میں دو تہائی کا اضافہ متوقع ہے اور اس اضافے کے زیادہ تر حصے کا تعلق جنوبی ایشیا سے ہوگا۔

الحمزوئی نے جنوری 2020 میں کہا، “اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جنوبی ایشیا کے ممالک کو اپنے شہریوں کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور توقعات کو پورا کرنے اور ہر ایک کے لیے توانائی کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بجلی کی سہولیات میں اضافہ کرنے اور ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہوگی۔”

2014ء سے لے کر 2018ء تک یو ایس ایڈ صاف توانائی تک رسائی کو وسعت دینے کے لیے بھارت میں 850 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر آیا ہے۔ یہ ادارہ بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ میں بجلی تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے بھی شراکت داریاں کر رہا ہے۔

 چھت پر لگے شمسی توانائی کے پینل کے قریب بیٹھے ہوئے لوگ (USAID Nepal)
یو ایس ایڈ نیپال میں ٹیکنیشنوں کو سورج سے بجلی پیدا کرنے کے وسائل میں تربیت دینے میں ہاتھ بٹا رہا ہے۔ (USAID Nepal)

بھارت میں امریکی سرمایہ کاری سے 50 لاکھ افراد کی بجلی تک رسائی میں بہتری آ رہی ہے اور اس سے ملک کو قابل تجدید توانائی کو بجلی کے گرڈ سے جوڑنے میں مدد ملنے کے ساتھ ساتھ انتہائی موثر ایئر کنڈیشنروں اور چھتوں پر شمسی توانائی کے پینل لگانے جیسی ٹکنالوجیوں کو عملی جامہ پہنانے میں بھی مدد مل رہی ہے۔

امریکہ اور بھارت کی بجلی کی تزویراتی شراکت داری کا آغاز 2018ء میں ہوا۔ اس سے بھارت کو اپنے ‘سب کے لیے بجلی’  کے منصوبے میں مدد مل رہی ہے۔ اس شراکت داری سے بھارت کے توانائی کے شعبے کو جدید بنانے اور 2022ء تک 175 گیگا واٹ قابل تجدید توانائی پیدا کرنے اور 2030ء تک 450 گیگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا ہدف پورا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

امریکہ اور بھارت بہتر تعاون، نجی سرمایہ کاری اور بجلی کی علاقائی تجارت کے ذریعے خطے بھر میں بجلی تک رسائی کو بڑہانے کے لیے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ بھی شراکت داری کر رہے ہیں۔

اکتوبر میں امریکہ نے جنوبی ایشیا میں توانائی کی منڈیوں کو فروغ دینے کے لیے 28 ملین ڈالر سے زائد کے نئے پراجیکٹوں کا اعلان کیا۔ یہ پراجیکٹ بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں توانائی کی مستحکم اور محفوظ منڈیوں کو فروغ دینے کے لیے 2018ء میں شروع کیے گئے امریکی حکومت کے توانائی کے ذریعے ایشیا کی ترقی و نمو میں اضافہ کرنے (ایشیا ای ڈی جی ای) کے منصوبے کو آگے بڑہا رہے ہیں۔

یہ سرمایہ کاریاں نجی شعبے کو جنوبی ایشیا کے توانائی کے رسدی سلسلوں میں شامل کریں گیں، توانائی کی شفاف اور موثر منڈیوں کو وسعت دیں گیں، اور خطے میں توانائی کے لیڈروں کو نئی ٹکنالوجیوں اور ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار طریقوں میں برتری دلائیں گیں۔

الحمزوئی نے 2020ء میں کہا، “بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں ہمارے کام میں توانائی ایک انتہائی اہم ترین ترجیح ہے۔ [ایشیا کے “ای ڈی جی ای منصوبے”] کے ذریعے ہم خطے میں بجلی کی تقسیم کی سہولیات کو درپیش چیلنجوں کے حل کے لیے ایشیائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔”

“ایشیا ای ڈی جی ای” کے تحت امریکہ اور بھارت کی صاف توانائی کی ٹاسک فورس کی حکمت عملیاں اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ بھارت کے پاس قابل تجدید توانائی کے اپنے اہداف حاصل کرنے اور روزمرہ طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی مقدار میں بجلی موجود ہو۔

“ایشیا ای ڈی جی ای” کے ذریعے محکمہ خارجہ کے بجلی کے شعبے کے پروگرام کے تحت بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاریوں میں اضافہ کرنے، بجلی کے پائیدار گرڈ تیار کرنے، اور سرحدوں کے آر پار بجلی کی تجارت میں اضافہ کرنے کے لیے سرکاری اہلکاروں، ضابطہ کاروں، اور بجلی کی کمپنیوں کی مدد کی جاتی ہے۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے  توانائی کے وسائل کے اسسٹنٹ سکریٹری، فرانسس آر فینن نے جون میں کہا، “ماضی قریب میں سامنے آنے والے کئی ایک عالمی چیلنجوں کے باوجود “ایشیا ای ڈی جی ای” کے تحت ہمارے ساتھ کام کرنے والے ممالک کی برادری تخلیقی حلوں کے ساتھ تیزی سے مطابقت پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس (برادری) سے مل کر ہمارے کام کرنے کے اعتماد کو تقویت ملنے کے ساتھ ساتھ خطے میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے ہمارے کام کرنے کے طریقوں اور اُس کے نتیجے میں وجود میں انے والی توانائی کی سلامتی کو بھی تقویت ملے گی۔”