29 اکتوبر کو اپنی حلف برداری کے بعد آرمی جنرل، لورا رچرڈسن امریکی سدرن کمانڈ کی جسے “ساؤتھ کام” بھی کہا جاتا ہے قیادت کرنے والی پہلی خاتون اور امریکی فوج کی 11 متحدہ لڑاکا کمانڈوں میں سے ایک کمانڈ کی قیادت کرنے والی تیسری خاتون بن گئیں۔
بطور کمانڈر رچرڈسن کیریبین کے علاوہ جنوبی اور وسطی امریکہ میں امریکی فوجی کارروائیوں کی نگرانی کریں گیں۔
انہوں نے حالیہ موسم گرما میں سینیٹ میں اپنی تصدیق کی سماعت کے دوران کہا، “ہمیں وبائی امراض سے ہونے والی تباہی سے نکلنا ہوگا اور اکیسویں صدی کے سکیورٹی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنے تعلقات کو تبدیل کرنے میں عجلت سے کام لینا ہوگا۔ سادہ الفاظ میں، اپنے اتحادیوں اور شراکت کاروں کے ہمراہ جیتنا اہمیت کا حامل ہے۔”

اپنی 30 سال سے زائد فوجی سروس کے دوران رچرڈسن کو چھوٹی کمپنیوں سے لے کر بڑی جنگوں میں آرمی بٹالین تک کو کمان کرنے کا متنوع تجربہ حاصل ہوا۔ خاص طور پر انہوں نے “آپریشن عراقی فریڈم” کے دوران 2003 اور 2004 میں عراق میں حملہ کرنے والی ایک ہیلی کاپٹر بٹالین کی کمانڈ کی۔
رچرڈسن نے وائٹ ہاؤس میں نائب صدر کی فوجی معاون، امریکی کانگریس میں فوجی معاملات سے متعلق قانون سازی کی رابطہ کار، اور پینٹاگون میں فوج کی ایک جنگی منصوبہ ساز کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
مندرجہ ذیل مقاصد کے لیے رچرڈسن لاطینی امریکہ اور کیریبین میں امریکی موجودگی کی قیادت کریں گیں:-
- آفات کی صورت میں انسانی اور امدادی سامان کی فراہمی۔
- منشیات سے جڑی دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کو روکنا۔
- خطے کے ممالک کی کووڈ-19 سے نکلنے اور بحالی میں مدد کرنا۔
انہوں نے 29 اکتوبر کو اپنا عہدہ قبول کرنے کی تقریب میں کہا، “ہم اپنے پڑوس میں ان شراکت داروں سے استفادہ کریں گے جن کی اور ہماری آزادی، جمہوریت، انسانی حقوق کے احترام، قانون کی حکمرانی اور صنفی مساوات کی اقدار مشترک ہیں۔”