جنوب مشرقی ایشیا میں سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے ذریعے لڑکیوں کو بااختیار بنانے کا اقدام

انڈونیشیا میں ہائی سکول کی طالبہ اور امریکی دفتر خارجہ کے حالیہ پروگرام ‘ویمن ان سائنس کیمپ’ (وائی سائی) میں شرکت کرنے والی کیرن ایگنیسیا اگنوٹیئس کہتی ہیں کہ ”سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) خواتین کو کیریئر بنانے کے بہت سے مواقع مہیا کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ”ایس ٹی ای ایم کے میدان میں خواتین کا کام اور شرکت عام ہونے سے معاشرے کو یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ خواتین بھی مردوں کی طرح اچھے کام کر سکتی ہیں۔”

 دو لڑکیاں پیالوں پر ایک سائنسی تجربہ کرنے میں مصروف ہیں (امریکہ کارنر فلپائن، مائیجوئنس سیسن)
کیسانڈرا اے ایسپابیلا (بائیں) اور وہیا آر بگسوٹ ایک سکرِبل بوٹ تیار کر رہی ہیں جو خوبخود حرکت کر کے ازخود فنی نمونہ تخلیق کر سکتا ہے۔ یہ کام فلپائن کے شہر بٹاک میں ایک کیمپ سیشن کے دوران ایس ٹی ای ایم سے متعلق ان کی سرگرمیوں کا حصہ ہے۔ (امریکن کارنر بٹاک، مائیجوئنس سیسن)

امریکہ کے تین سفارت خانوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں ثانوی سکول کی طالبات کے لیے وائی سائی کیمپ کے لیے باہم تعاون کیا۔ نجی شعبے کی جانب سے دیے جانے والے مالی وسائل نے مقامی لوگوں اور کم آمدنی والے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے اس پروگرام تک رسائی ممکن بنائی۔

اس پروگرام میں امریکی دفتر خارجہ کے زیراہتمام چلائے جانے والے مراکز ‘امریکن سپیسس’ نے ان لڑکیوں کی میزبانی کی تاکہ وہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) کے بارے میں جان سکیں جبکہ امریکہ سے تعلق رکھنے والا غیرمنفعی ادارہ ‘گرل اپ!’ اور امریکی کمپنیوں اِنٹیل اور کیٹرپِلر نے طلبہ کے لیے مالی وسائل، تعلیمی رہنما اور سہولت کار، نصاب اور پروگرام سے متعلق مواد کی فراہمی کے لیے وائی سائی کی ٹیم کے ساتھ کام کیا۔

 کانوں پر ہیڈ فون لگائے طالبہ ایک کمپیوٹر پر کام کر رہی ہے (امریکن کارنر یو این ٹی اے این/لیسٹریو)
پروگرام میں شریک عنایہ جولیانتی انڈونیشیا کے شہر پونٹیانک میں جولائی میں لگائے جانے والے وائی سائی ساؤتھ ایسٹ ایشیا ہائبرڈ کیمپ کے دوران ایک کمپیوٹر پر کام کر رہی ہیں۔ (امریکن کارنر یو این ٹی اے این/لیسٹریو)

انڈونیشیا، ملائشیا اور فلپائن سے تعلق رکھنے والی ستر شرکا نے جولائی میں امریکن سپیسس کے سات مقامات پر ایک دوسرے سے ملاقاتیں کیں۔ یونیورسٹی سے حال ہی میں گریجوایشن مکمل کرنے والی چودہ خواتین مشیروں نے 10 لڑکیوں پر مشتمل گروہوں کی قیادت کی جن میں ہر گروہ کے ساتھ دو مشیروں نے کام کیا۔

عملی تعلیم اور ‘ایس ٹی ای ایم’ میں رہنمائی

تَن جُنگ پورہ یونیورسٹی کے لینگوئج سنٹر میں انگریزی کی استاد سوکرتی انڈونیشیا میں ایک کیمپ قونصلر تھیں جنہوں نے اسباقی منصوبوں کے ذریعے ہائی سکول کی 10 طالبات پر مشتمل گروہ کی قیادت کی جنہیں ‘ایس ٹی ای ایم’ میں سرکٹ بنانے جیسے منصوبوں کے بارے میں بھی سکھایا گیا۔

سوکرتی کا کہنا ہے کہ ”ایس ٹی ای ایم کے میدان میں لڑکیوں کو بااختیار بنانا اور دوسری خواتین کی مدد کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنا بہت اچھا تجربہ تھا۔ اس دوران پروگرام میں ان کا پسندیدہ ترین حصہ وہ تھا جس میں ”لڑکیوں کو اپنے مرد ساتھیوں کی طرح اپنی بات کرنے کا موقع دیا گیا۔”

 بیگ تھامے لڑکیاں امریکن کارنر کی دیوار گیر نقاشی کے سامنے تصویر بنوا رہی ہیں۔ (امریکن سپیسس ڈاواؤ سٹی)
جولائی میں فلپائن کے شہر ڈاواؤ میں منعقدہ ‘ویمن اِن سائنس کیمپ’ کی شرکا تصویر بنوا رہی ہیں۔ (امریکن سپیسس ڈاواؤ سٹی)

پروگرام کے تمام شرکا ہم خیال تھے۔ انڈونیشیا کے شہر سورابایا میں اس پروگرام میں شرکت کرنے والی ہائی سکول کی طالبہ فاطمہ نور حمیدہ کا کہنا تھا کہ ”میں نے یہ سیکھا کہ مثبت سوچ کے حامل اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے والے لوگوں کے ساتھ اور ایک ایسی جگہ کیسے رہنا ہے جہاں میں آزادانہ طور سے اپنے خیالات کا اظہار کر سکوں اور خود کو دیکھے اور سنے جانے کا احساس کس طرح میرے اعتماد اور احساسِ تحفظ میں اضافہ کر سکتا ہے۔”

بجلی کے سرکٹ سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے علاوہ انہوں نے امکان اور موقع کے مابین ریاضیاتی فرق کے بارے میں بھی جانا اور ایس ٹی ای ایم کے میدان میں خواتین رہنماؤں سے لیکچر سنے اور تربیت پائی۔

 دو خواتین ایک سائنسی منصوبے پر کام کر رہی ہیں۔ (امریکن کارنر کیداہ/ چی سوفی بن احمد)
جولائی میں ملائشیا کے شہر کیداہ میں منعقدہ پروگرام میں قونصلر ایک طالبہ کو سکرِبل بوٹ بنانے کے لیے برقیاتی اجزا کو کاغذ کے پیالے سے جوڑنے میں مدد دے رہی ہے۔ (امریکن کارنر کیداہ/ چی سوفی بن احمد)

پروگرام میں شریک طالبات اور قونصلر دونوں نے اس پروگرام سے اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے اور اپنے کیریئر میں آگے بڑھتے ہوئے ایس ٹی ای ایم کے شعبوں میں ایک دوسرے سے وابستہ رہنے کی تحریک پائی۔

نور حمیدہ کا کہنا ہے کہ ”کیمپ کے اختتام تک میری یہ سوچ پہلے سے کہیں زیادہ پختہ ہو گئی کہ میں ایس ٹی ای ایم کے میدان میں اپنا کیرئر بناؤں گی۔”

سوکرتی بھی اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”ایس ٹی ای ایم کے شعبوں میں ہی رہنے والی خواتین کے لیے طویل مدتی امکانات بہت زیادہ ہیں۔”

سوکرتی کا کہنا ہے کہ ”انڈونیشیا میں ایس ٹی ای ایم کے میدان میں خواتین کی شرکت کو بڑھانا بہت اہم ہے کیونکہ یہاں خواتین کے خلاف امتیاز برتا جاتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہم بااختیار ہوں تو ہم بہت کچھ کر سکتی ہیں۔”