انڈونیشیا کے درآمد کنندگان اوہائیو سے شہد کی مکھیوں کے چھتوں اور سی ایٹل سے سمندری خوردنی اشیا میں اتنی گہری دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟ اس کی وجہ امریکی مصنوعات کا معیاری اور اِن کے استعمال کا محفوظ ہونا ہے۔

حال ہی میں امریکی معاونت سے ایک تجارتی وفد میں جکارتہ جانے والے ریاست اوہائیو کے شہر کلیولینڈ میں قائم “کریزی بی گائے” نامی کمپنی کے مالک، جم لیونز بتاتے ہیں، “میں جتنے بھی خریداروں سے [وہاں] ملا سب نے کہا کہ اُن کے تجربے کے مطابق دار چینی والے شہد جیسی میری شہد کی مصنوعات کا معیار دنیا بھر میں سب سے اچھا ہے۔” ملائشیا اور فلپائن سے تعلق رکھنے والے درآمد کنند گان بھی 16 تا 19 جولائی تک جکارتہ کا دورہ کرنے والے اس وفد میں شامل تھے۔

سی ایٹل سے تعلق رکھنے والے، ‘مارنیلی شیل فش’ کے بل مارنیلی کے بقول “ایشیا کے جنوب مشرقی خطے میں امریکہ کی سمندری خوردنی اشیا کی بہت زیادہ مانگ ہے۔” انہوں نے بتایا کہ 250 کے قریب ہونے والی کاروباری ملاقاتوں کے نتیجے میں انہیں مقامی برآمد کنندگان کو سننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ اپنی ویب سائٹ پر اس کمپنی کا یہ کہنا ہے کہ “ایشیا میں اس کا کاروبار اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ امریکہ کے اندر اہم ہے۔”

Bees on a honeycomb (© Alamy/USDA)
شہد کی مکھیاں اور اُن کا شہد امریکہ کی مقبول عام برآمدات ہیں۔ (© Alamy/USDA)

جنوب مشرقی ایشیا امریکہ کی زرعی اجناس کے لیے ایک بہت بڑی منڈی ہے۔ یہاں کے صارفین امریکہ کی سمندر میں پیدا ہونے والی خوردنی اشیا، سویا بین، کپاس، گندم، دودھ اور اس سے بنی اشیا، حتٰی کہ امریکہ کی شہد کی مکھیوں میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

امریکی محکمہ زراعت کے مطابق اس علاقے میں امریکہ کی تیار کردہ اشیائے خورد و نوش کی فروخت میں گزشتہ 10 برسوں کے دوران 68 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2017 میں اس کا حجم 11.8 ارب امریکی ڈالر تھا۔ اس میں امریکی شہد کی مکھیوں کا بھی حصہ ہے۔ 2017 کے دوران شہد کی مکھیاں پالنے والے امریکی،27 لاکھ سے زیادہ شہد کی مکھیوں کے فارم چلا رہے تھے جن سے تقریبا چھ کروڑ آٹھ لاکھ کلوگرام شہد حاصل کیا گیا اور اس میں سے 4.5  کروڑ کلوگرام شہد بیرونی ممالک کو برامد کیا گیا۔

انڈونیشیا جانے والے تجارتی وفد کے سربراہ امریکی زرعی اہلکار، ٹیڈ میکنی کہتے ہیں کہ اس طلب میں اضافے کی وجہ امریکی مصنوعات کا اعلٰی معیار ہے۔ یہ اس سال کا ساتواں تجارتی وفد تھا۔ ان وفود کا مقصد امریکہ کے زرعی تجارتی اداروں اور سرکاری  قائدین کو دنیا بھر کے درامد کنندگان کے ساتھ جوڑنا ہوتا ہے۔ گزشتہ برس جن ممالک میں تجارتی وفود گئے اُن میں برازیل اور بھارت بھی شامل تھے۔

میکنی وفد کے ارکان کو جکارتہ میں امریکی مصنوعات بیچنے والی ایک سپر مارکیٹ میں بھی لے جایا گیا تاکہ وہ اِس کے مینجروں سے بات چبت کر سکیں۔ میکنی بتاتے ہیں، “وہ حقیقی معنوں میں زیادہ سے زیادہ امریکی  مصنوعات چاہتے ہیں۔” میکنی کے بقول امریکی مصنوعات کے سلسلے میں وہ “خوشگوار حیرانگی” میں مبتلا ہیں۔ جب لوگ امریکی مصنوعات خریدتے ہیں تو انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اولاً: اِن کا معیار بلند ہے۔ دوئم: ان کا استعمال محفوظ ہے۔”

Man sorting soybeans (© Aman Rochman/AFP/Getty Images)
ایک کارکن امریکہ سے درآمد کیے گئے سویا بین سے”ٹیمپہ” نامی روائتی انڈونیشیائی کھانا تیار کرنے میں مصروف ہے۔ انڈونیشیا اپنی ضرورت کا زیادہ تر سویابین امریکہ سے درآمد کرتا ہے۔ (© Aman Rochman/AFP/Getty Images)

اس خطے میں امریکی زرعی مصنوعات میں حالیہ اضافے کے نصف سے زیادہ کا تعلق انڈونیشیا، ملائیشیا، ویت نام، تھائی لینڈ اور فلپائن سے ہے۔

انڈونیشیا ترقی کی راہ پر گامزن

جنوب مشرقی ایشیا میں آبادی کے حساب سے سب سے بڑا ملک انڈونیشیا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کے مطابق 2017ء میں انڈونیشیا کو امریکی برآمدات کا حجم تقریبا 2.9 ارب ڈالر تھا، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ ہے۔

انڈونیشیا کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ انڈونیشیا کی مجموعی ملکی پیداوار میں ہر سال اوسطاً 5  فیصد اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے متوسط طبقے کی قوتِ خرید میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہاں صارفین اعلی معیار کی، صحت بخش اور استعمال کے لیے محفوظ مصنوعات خریدنے کے طلب گار ہیں۔ اور یہ تمام خصوصیات امریکی مصنوعات میں بدرجہ اُتم پائی جاتی ہیں۔

لیونز کہتے ہیں، “شہد کی ہماری مکمل طور پر قدرتی اور نامیاتی مصنوعات اور مگس بانی کے بارے میں میری معلومات سے وہ بہت متاثر ہوئے۔” لیونز کو اکتوبر 2018 میں شہد کی مکھیوں سے متعلق علاقائی اجلاس میں مہمان مقرر کے طور پر شرکت کرنے کے لیے ایک بار پھر انڈونیشیا آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ لیونز نے کہا، “شہد کی مکھیاں، ان کے چھتے، ان سے تیارکردہ مصنوعات اور مگس بانی کے طریقوں سمیت، غرضیکہ وہ ہر ایک چیز خریدنا چاہتے ہیں۔ انڈونیشیا  میں ہمارا تجارتی مستقبل بہت روشن  دکھائی دیتا  ہے۔”