جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے افریقی شراکت کاروں کی مدد [تصویری خاکہ]

افریقی ممالک جنگلی حیات کے تحفظ میں بڑی بڑی  پیش رفتیں کر رہے ہیں اور امریکہ ان کی مدد کا عزم کیے ہوئے ہے۔ امریکہ کے سرکاری ادارے ایسے افریقی پروگراموں کے لیے فنڈ  فراہم کر رہے ہیں جن کے تحت سمندری کچھوؤں کے مسکنوں کی حفاظت کی جاتی ہے، جنگلی حیات کی سمگلنگ کو روکا جاتا ہے اور محفوظگی کے کاموں میں کمیونٹی کی شمولیت کو فروغ دیا جاتا ہے۔

کینیا میں گینڈوں کی تعداد میں 11 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (ڈی آر سی) میں انتہائی خطرے سے دوچار گوریلوں کے لیے محفوظ علاقوں کی تعداد میں 60 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ 2020 کے دوران افریقہ کے ملک کیپ وردے میں لاگر ہیڈ کچھوؤں کے گھونسلے تقریباً دو لاکھ تک پہنچ گئے۔ یاد رہے کہ 2015 میں اِن کی تعداد 10,725 تھی۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 17 نومبر کو اُس امریکی شراکت داری کا اعلان کیا جو افریقہ میں محفوظگی میں اور زیادہ کوششوں کی ترغیب دلانے میں مدد کرے گی۔ انہوں نے کہا، “یہ ہمارے سیارے [کرہ ارض] کے لیے ایک انتہائی اہم وقت ہے۔ ہمارا مقصد لیڈروں کی ابھرتی ہوئی ایک نسل کو اس جنگ کی قیادت کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔”

امریکہ کے بین الاقوامی ادارے، یو ایس ایڈ نے 2018 کے وسط سے لے کر 2019 کے وسط تک افریقہ میں حیاتیاتی تنوع کے پروگراموں میں تقریباً 117 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور اسی عرصے کے دوران جنگلی حیات کی سمگلنگ سے نمٹنے کے لیے بھی تقریباً 40 ملین ڈالر خرچ کیے۔

معدومی سے دوچار انواع

امریکہ کی ماہی گیری اور جنگلی حیات کی سروس کی کیپ وردے میں حیاتیاتی تنوع کے پراجیکٹ میں کیپ وردے کے ساتھ شراکت داری کے تحت خطرے سے دوچار سمندری کچھوؤں کے تحفظ کو مضبوط بنانے، ساحلوں پر بنائے گئے کچھوؤں کے گھونسلوں کی حفاظت کے لیے کی جانے والی گشت، خطرات کی زد میں آنے والے گھونسلوں کی نئی جگہ منتقلی اور دیگر کوششوں کے لیے فنڈ فراہم کر رہی ہے۔

امریکی تعاون سے کینیا کی جنگلی حیات کی سروس (کے ڈبلیو ایس ) نے جنگلی حیات کی سمگلنگ میں نمایاں کمی کی ہے۔ کینیا میں گینڈوں کی آبادی میں 11% اضافہ ہوا۔ 2019 میں ان کی تعداد 1,441 تھی جو 2020 میں بڑھکر 1,605 تک پہنچ گئی۔ اس سال ایک بھی گینڈے کا غیر قانونی شکار نہیں ہوا۔

(State Dept./M. Gregory)

کینیا کے حکام اس کامیابی کا سہرا اُس فرانزک اور جینیاتی لیبارٹری کے سر باندھتے ہیں جسے یو ایس ایڈ نے 2015 میں قائم کیا تھا۔ اس کا مقصد کینیا کے حکام کی کامیابی میں مدد فراہم کرنا تھا۔ ڈاکٹر فرانسس گاکیا جانوروں کے ڈاکٹر ہیں اور ڈبلیو ایس کے میں جانوروں کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے اس لیبارٹری کے حوالے سے بتایا،  “ہر دوسرے دن ہمارے کام کو کینیا میں کسی نہ کسی عدالتی مقدمے میں استعمال کیا جاتا ہے” اور ہم اس لیبارٹری سے معدومی کی شکار انواع پر نظر رکھنے اور غیرقانونی طور پر شکار کرنے والوں کو پکڑنے میں مدد کرتے ہیں۔

امریکی تعاون سے چلنے والے دیگر پروگراموں کے ذریعے کینیا کی کمیونٹیوں کی جانب سے کی جانے والی تحفظ کی کوششوں کی قیادت کرنے میں حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ سیاحت کے فوائد حاصل کرنے میں بھی مدد  کی جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک پروگرام، ناردرن رینج لینڈز ٹرسٹ ہے۔ اس پروگرام کے تحت 4.9 ملین ہیکٹر رقبے میں ہاتھیوں، زرافوں، چیتوں اور جنگلی بھینسوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ رقبہ امریکی ریاست نیو جرسی سے تقریباً دوگنا بڑا ہے۔

نفاذ قانون میں مدد

ڈی آر سی اور پڑوسی ملک جمہوریہ کانگو کے ساتھ امریکی شراکت داریوں کے نتیجے میں کانگو طاس کے علاقے میں 20 سال سے زائد عرصے میں 32 ملین ہیکٹر رقبے کو محفوظ بنایا گیا ہے۔

امریکی حکومت پارک رینجرز کو تربیت دیتی ہے، جنگلی حیات کی نگرانی اور انسداد اسمگلنگ کی کوششوں کو تقویت پہنچاتی ہے، معدومیت کے انتہائی سنگین خطرات کے شکار گراور گوریلوں کے مضبوط گڑھ سمیت متعدد انواع کے مسکنوں کی حفاظت کرتی ہے۔

 خوراک کی تلاش میں ایک پینگولن۔ (© Themba Hadebe/AP Images)
امریکی اور ڈی آر سی حکام نے ایک مشترکہ تحقیقات کے ذریعے پینگولین کے جلدی چھلکوں سمیت سمگل شدہ جنگلی حیات کے جسمانی اعضاء برآمد کیے۔ (© Themba Hadebe/AP Images)

نومبر میں دو سال کی تحقیقات کے بعد امریکہ اور ڈی آر سی  کے حکام نے دو شکاریوں کو گرفتار کیا اور 3.5 ملین ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہاتھی دانت، گینڈے کے سینگ اور پینگولین کے جلدی چھلکے ضبط کیے۔

ڈی آر سی میں امریکی سفیر مائیک ہیمر نے کہا، “یہ کامیاب آپریشن امریکہ کی حکومت کے کانگو کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ جنگلی حیات کی اُس غیر قانونی سمگلنگ سے نمٹنے کے تعاون کے عزم کی ایک ٹھوس مثال ہے جس کے ذریعے ڈی آر سی کو قدرتی خزانوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔”