ہاتھی دانت کے جلتے ہوئے دو بڑے بڑے ڈھیر (© Ben Curtis/AP Images)
کینیا میں نیروبی کے نیشنل پارک میں ہاتھی دانت کے ڈھیروں کو جلایا جا رہا ہے۔ یہ حکومت کی جانب سے اُن جانوروں سے تیار کی جانے والی مصنوعات کی سمگلنگ کے خلاف ایک طاقتور پیغام ہے۔ (© Ben Curtis/AP Images)

مجرموں کے منظم عالمی گروہوں کی سالانہ 20 ارب ڈالر کی جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت، امریکہ کے دباؤ میں ہے۔

جنگلی حیات کی صدارتی ٹاسک فورس نے 2015ء کے بعد سے قانون کے نفاذ کو فروغ دینے، بین الاقوامی تعاون پیدا کرنے، اور جنگلی جانوروں اور اُن کے اعضا کی طلب کو کم کرنے پر مشتمل سہ جہتی حکمت عملی تیار کی۔ امریکہ کے وزرائے انصاف، خارجہ اور داخلہ اس ٹاسک فورس کے مشترکہ سربراہان ہیں۔ یہ ٹاسک فورس جنگلی حیات کی سمگلنگ کو ختم کرنے کی قومی پالیسی کو نافذ کرنے کے لیے 17 وفاقی اداروں کی خدمات سے فائدہ اٹھاتی ہے۔

جنگلی حیات کی سمگلنگ کے خاتمے کی حکمت عملی کے قانون کے 2020ء کے جائزے کے مطابق، 2019ء کے مالی سال میں امریکی حکومت نے دنیا بھر میں جنگلی حیات کی سمگلنگ کے خاتمے کے لیے 114 ملین ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا۔

 شیلف پر پڑی ہوئی جانوروں کی کھالیں، اُن کے اعضا اور بوتلیں (© Romeo Gacad/AFP/Getty Images)
میانمار میں دوائیوں کی ایک روائتی دکان میں نایاب جنگلی بلی کی کھال اور دیگر جنگلی جانوروں کے اعضا فروخت کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔ (© Romeo Gacad/AFP/Getty Images)

محکمہ خارجہ کے سمندری اور بین الاقوامی ماحولیات اور سائنسی امور کے بیورو کی رووینا واٹسن نے کہا، “عالمی سطح پر جنگلی حیات کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے ہم حکمت عملی کی اہم راہوں پر اجتماعی حکومتی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔”

مسئلہ

امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) کی جنگلی حیات کی سینئر مشیر، میری راون کے مطابق دنیا میں کسی بھی جگہ اہم انواع کے ختم ہو جانے سے ممالک کی سیاحت متاثر ہوتی ہے اور وہ اُن وسائل سے محروم ہو جاتے ہیں جن کی اُنہیں اپنے ہاں پائیدار ترقی کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا، “ہم نہیں چاہتے کہ وہ کسی بھی وجہ سے انہیں ضائع کر دیں۔ اس طرح کے نقصان کا ہر ایک پر اثر پڑتا ہے۔”

ایسی انواع کی طلب جنہیں تحفظ حاصل ہے — اِن میں پینگولین، ہاتھی اور گینڈے بھی شامل ہیں — غیرقانونی اور منافع بخش تجارت کو پروان چڑہاتی ہے۔ ایشیا میں طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بالخصوص چین میں ابھرتے ہوئے درمیانے طبقے کی قوت خرید کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔ محکمہ خارجہ میں جنگلی حیات کے تحفظ کی ٹیم کی سربراہ واٹسن کہتی ہیں، “چین یقینی طور پر اس مسئلے کی بنیاد ہے۔”

افریقہ میں ہاتھیوں اور گینڈوں کے خلاف جرائم سے مقامی لوگوں کو کئی ایک طریقوں سے نقصان پہنچتا ہے۔ اِن جرائم سے بدعنوانی زور پکڑتی ہے اور قانون کی حکمرانی اور سخت محنت کے بعد حاصل ہونے والی جنگلی حیات کے تحفظ کی کامیابیوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ واٹسن نے کہا کہ اس طرح کے جرائم سے مقامی لوگوں کے قدرتی وسائل اور روزی کے ذرائع پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔ پینگولینوں، بندر نسل کے جانوروں، چوہوں اور چمگادڑوں سمیت شکار کیے جانے والی دیگر انواع کے ذریعے بیماریوں کے انسانوں میں منتقل ہونے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ بیماریاں گاؤں یا دنیا بھر میں پھیل سکتی ہیں۔

گینڈے کے سینگ میں وہی پروٹین پائی جاتی ہے جو انسانی ںاخنوں میں پائی جاتی ہے۔ اِن کے سینگوں کو پیس کر روائتی ایشیائی دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔ یہ اشیا رتبے کی ایک علامت کے طور پر بھی فروخت ہوتی ہیں۔ اس کی ایک مثال زیورات میں اِن کا استعمال ہے۔ جنگلی حیات کے عالمی فنڈ کے مطابق، حالیہ برسوں میں صرف جنوبی افریقہ میں 508 گینڈے لوٹ مار کا شکار ہوئے۔

ہاتھیوں کو اُن کے نوکیلے دانتوں کی وجہ سے ذبح کیا جاتا ہے۔ اِن سے فنکارانہ اشیا بنائی جاتی ہیں جن میں پیچیدہ قسم کے مجسموں سے لے کر سادہ کڑوں تک شامل ہوتے ہیں۔ جنگلی حیات کے عالمی فنڈ کے مطابق ہر روز اندازاً 55 افریقی ہاتھیوں کو اُن کے دانت حاصل کرنے کے لیے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ہاتھیوں کی جلد کے نرم چمڑے سے پاؤں رکھنے والے سٹول بھی بنائے جاتے ہیں۔

پینگولین افریقہ اور ایشیا، دونوں براعظموں میں پائی جاتی ہیں۔ اُن کی جلد پر واقع مچھلی کے چھلکوں جیسے چھلکوں کی وجہ سے سال 2019 میں 195,000 پینگولینوں کی سمگلنگ کی گئی۔ چین اور ویت نام میں پینگولین کے گوشت کو مہنگا اور لذیذ کھانا سمجھا جاتا ہے۔ بغیر کسی ثبوت کے اس ممالیہ جانور کو دودھ پلانے والی ماؤں میں بچوں کے لیے زیادہ دودھ پیدا کرنے اور خاص قسم کے امراض کا علاج کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

 آدمی کے ہاتھ پر پینگولین نے اپنا سر رکھا ہوا ہے (© Denis Farrell/AP Images)
غیرقانونی شکاریوں سے برآمدگی کے بعد ایک پینگولین کا جوہانسبرگ کے حیوانات کے ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے۔ (© Denis Farrell/AP Images)

 مسائل کے حل

جنگلی حیات پر صدارتی ٹاسک فورس کے جو امریکی ادارے حصہ ہیں وہ سمگلنگ کے خاتمے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھا رہے ہیں:-

  • قانون کے نفاذ کو مضبوط بنانا: تمام حکومتی ادارے انصاف کے نظام کے تعزیراتی عمل میں بہتری لانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کام میں مجرموں کو دوران جرم پکڑنا، قانون نافذ کرنا اور مقدمات قائم کرنا شامل ہیں۔ محکمہ خارجہ جنگلی حیات کی سمگلنگ کو سرحدوں سے ماورا ایک مجرمانہ کاروبار اور قومی سلامتی کے ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اسے روکنے کے لیے محکمہ دوسرے ممالک کی قانون نافذ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یو ایس ایڈ اور محکمہ خارجہ، بشمول مقدمات قائم کرنے میں سرکاری وکلا کی مدد کرنے کے، نفاذ قانون کی تمام سطحوں پر صلاحیتیں پیدا کرتا ہے۔ یو ایس ایڈ کی رووین نے کہا، “مقدمات چلانے میں بہتری لانے کے پیچھے یہ خیال کارفرما ہوتا ہے کہ اُن لوگوں پر ہاتھ ڈالا جائے جو خوراک کی رسد کے سلسلے کی چوٹی پر ہیں۔”
  • بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا: محکمہ خارجہ جنگلی حیات کی اونچے درجے کے خطرے کی مارکیٹوں کو بند کرنے، بدعنوانی کو روکنے اور سمگلنگ سے حاصل ہونے والے پیسے کے بہاؤ کو روکنے کی خاطر اعلی ترین سطح پر وعدے حاصل کرنے کی غرض سے سفارت کاری کو استعمال کرتا ہے۔ یو ایس ایڈ جانوروں اور اُن کے اعضا کی فضائی نقل و حمل کے استعمال کو کم کرنے کے لیے فضائی صنعت کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔
  • طلب میں کمی پیدا کرنا: اپنے سفارت خانوں کے ذریعے کام کرتے ہوئے، امریکہ دنیا بھر کے لوگوں سے رابطہ کرتا ہے، اور بیماریوں کے ساتھ جڑے قطعی طور پر حقیقی تعلق سمیت جنگلی حیات کی غیرقانونی تجارت سے لاحق خطرات کے بارے میں انہیں آگاہ کرتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ جنگلی حیات سے تیار ہونے والی مصنوعات کون، کیوں اور کن حالات کے تحت خریدتا ہے، یو ایس ایڈ نے چین اور تھائی لینڈ میں کی جانے والی ابتدائی تحقیق سے فائدہ اٹھایا۔ وہاں سے حاصل ہونے والے تجربات اور یو ایس ایڈ کی مدد سے ویت نام میں جاری مطالعاتی جائزے کو استعمال کرتے ہوئے، یو ایس ایڈ دیگر اداروں، غیرسرکاری تنظیموں کے ہمراہ ابلاغ عامہ کی ایسی مہمیں چلا رہا ہے جو صارفین کا رویہ تبدیل کر سکتی ہیں۔”

یہ مضمون ایک مختلف شکل میں  15 اکتوبر 2020 میں ایک بار پہلے بھی شائع کیا جا چکا ہو۔