کاؤس سید امامی کو ایران میں معدومی کے خطرات سے دوچار تیندووں اور چیتوں کے تحفظ کی جدوجہد کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کرنا پڑی۔
ایرانی حکام نے عمرانیات کے 64 سالہ پروفیسر اور ‘پرشین وائلڈ لائف ہیریٹیج فاؤنڈیشن” [جنگلی حیات کے ورثے کی ایرانی فاؤنڈیشن] کے ڈائریکٹر کو ”جاسوسی” کےالزام میں 24 جنوری 2018 کو گرفتار کر کے ان سے پوچھ گچھ کی۔
17 روز بعد وہ تہران کی بدنام اوین جیل میں مشکوک حالات میں مارے گئے۔
”پرشین وائلڈ لائف ہیریٹیج فاؤنڈیشن” سے تعلق رکھنے والے دیگر آٹھ افراد کو بھی اسی طرح گرفتار کیا گیا جو بدستور اوین جیل میں قید ہیں۔
Eight environmentalists have been detained without counsel in Iran for the last 9 months. Now their families are urging Iran's supreme leader @khamenei_ir to remember his own time as a political prisoner and let them go https://t.co/bHElkEi4Rt.
— IranHumanRights.org (@ICHRI) September 25, 2018
”ہیومن رائٹس واچ” کی مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کے لیے ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن بتاتی ہیں، ”ایرانی حکام نے تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے ان لوگوں کی حراست کے جواز میں تاحال کوئی چھوٹی سی شہادت بھی پیش نہیں کی۔”
ایران اور کینیڈا کی دہری شہریت کے حامل سید امامی اور دیگر لوگوں کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایران کے ماحول اور خطرات سے دوچار ایشیائی چیتے (ایران میں ان کی تعداد اب 50 سے بھی کم رہ گئی ہے) جیسی انواع اور ایرانی تیندووں کے بارے میں عوامی آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
ان کے بیٹے مہران سید امامی نے اپنے والد کی موت سے ایک ماہ بعد ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا،”انہیں صرف ایران سے ہی نہیں بلکہ اس کی جنگلی حیات اور اس کے لوگوں سے بھی محبت تھی۔”
جنگلی حیات کے ماہرین کو قید میں کیوں ڈالا جاتا ہے؟

ماہرین ماحولیات تواتر سے ایران کے پاسداران انقلاب کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ماہرین جانوروں کے لیے زمین کے تحفظ کی مہمات چلاتے ہیں اورعموماً یہ مہمات پاسداران کے پیسے بنانے اور ڈیموں کی تعمیر اور محفوظ زمین پر میزائلوں کی تنصیب کی منصوبہ بندیوں جیسی تباہ کن ماحولیاتی کارروائیوں سے متضاد ہوتی ہیں۔
اپنی تحقیق کے سلسلے میں ”پرشین وائلڈ لائف ہیریٹیج” کا عملہ غیرملکی ماہرین سے مسلسل رابطے میں رہتا ہے اور نایاب جنگلی چیتوں کا کھوج لگانے کے لیے کیمرے نصب کرتا ہے۔ یہ دونوں اقدامات دنیا بھر میں جنگلی حیات کے کسی بھی ادارے کے لیے عام سی بات ہیں مگر ایرانی سرکاری استغاثہ نے انہیں سید امامی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کیمروں سے ”مخصوص معلومات جمع کرنے” اور انہیں غیرملکی حکومتوں کو دینے کے الزام کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا۔
اسلامی انقلابی عدالت میں مقدمہ چلا کر انہیں سزا دی گئی۔ عدالت کا یہ شعبہ قومی سلامتی سے متعلق مبینہ الزامات پر کارروائی کرنے والا ماورائے عدالت شعبہ ہے۔ یہ خفیہ طور سے کام کرتی ہے اور اہلخانہ کی جانب سے معلومات تواتر سے روکتی، مدعاعلیہان کو ‘اعترافات’ پر مجبور کرتی اور انہیں وکیل سے بھی محروم رکھتی ہے۔
پاسداران انقلاب نے صرف 2018 میں کم از کم 50 ایرانی ماحولیاتی کارکنوں کو پانی کا رخ موڑنے اور زمین کے استعمال سے متعلق دیگر امور پر سوال کرنے پر حراست میں لیا۔ ان کارکنوں کی مظاہرین خصوصاً کسانوں کو متحرک کرنے کی اہلیت نے پاسداران انقلاب کے شبہات کو بڑھاوا دیا۔
وٹسن کہتی ہیں، ”حکام کو سنگین ماحولیاتی مسائل پر بات کرنے والے ان کارکنوں کی ستائش کرنا چاہیے تھی مگر اس کے برعکس ملک کے سخت گیر سکیورٹی ادارے آزادانہ شہری اقدام پر سزا دینے کا شاید ہی کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے ہوں”