عالمی جنگ کے میدانوں میں جہاں ایک طرف لاکھوں فوجی اپنی جانیں کھو بیٹھے وہیں تباہ حال علاقوں میں کروڑوں افراد کو بھوک کا سامنا بھی تھا۔ قحط کا خطرہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی، کافی عرصے تک باقی رہا۔

Herbert Hoover standing by car (© AP Images)
اس تصویر میں پہلی عالمی جنگ کے دوران ہربرٹ ہُوور کو فرانس میں دکھایا گیا ہے۔ انھوں نے امدادی کارروائیوں کو منظم کیا جن کی وجہ سے جنگ کے دوران اور جنگ بندی کے بعد، بیلجیم میں اور یورپ کے طول و عرض میں کروڑوں لوگوں کو غذا ملی اور فاقہ کشی سے چھٹکارا ملا۔ (© AP Images)

بھوک کا مسئلہ کہیں زیادہ بدتر ہو سکتا تھا لیکن ایک شخص نے اپنی کوششوں سے وسیع پیمانے پر غذائی اشیاء کی ترسیل کا بندوبست کیا: اور یہ بعد میں امریکہ کے بننے والے 31ویں صدر، ہربرٹ ہُوور تھے۔

ہُوور ریاست آئیووا کے رہنے والے تھے اور ایک لوہار کے بیٹے تھے۔ وہ  کان کنی کے شعبے کے ایک مشہور و معروف انجنیئر تھے اور انہوں نے آسٹریلیا سے چین تک اور دنیا کے بہت سے دوسرے علاقوں میں بہت بڑے بڑے پراجیکٹوں کومکمل کیا۔ جب پہلی عالمی جنگ چِھڑی، تواس وقت وہ لندن میں مقیم تھے۔ اس وقت امریکی قونصل نے ان سے درخواست کی کہ وہ اُن 120,000 امریکیوں کی بحفاظت وطن واپسی کا بندوبست کریں جو یورپ میں پھنس کر رہ گئے تھے۔

اس کے بعد، برطانیہ میں امریکی سفیر نے 40 سالہ ہُوور سے کہا کہ وہ بیلجیم کے 70 لاکھ لوگوں کے لیے امدادی سامان کی فراہمی کا بندوبست کریں۔ بیلجیم وہ ملک تھا جس پر جرمن فوج چڑھ دوڑی تھی اور یہ ملک برطانیہ کی طرف سے بحری ناکہ بندی کی وجہ سے غذائی اشیاء درآمد نہیں کر سکتا تھا۔ تیس لاکھ فرانسیسی شہریوں کو بھی اسی طرح کی مشکلات کا سامنا تھا۔

چند ہی دنوں میں، ہُوور نے مالدار کاروباری شخصیتوں کی مدد حاصل کر لی، حکومت سے اور فلاحی اداروں سے امداد لی، اور ایک ایسی ٹیم کی تشکیل پر کام شروع کر دیا جو اس مشکل صورتِ حال سے نمٹ سکتی تھی۔ جلد ہی، ہالینڈ سے نہر کے ذریعے 20,000 ٹن گندم بیلجیم پہنچنا شروع ہوگئی۔  ہُوور نے مال بردار بحری جہازوں کے بحفاظت سفر کے لیے مذاکرات کیے، اور اس کے نتیجے میں لاکھوں ٹن غذائی اشیاء جنگ سے تباہ حال ملکوں میں پہنچائی گئیں۔ ہُوور کی یہ چھوٹی سی تنظیم  جنگ کی پوری مدت کے دوران، ہر ماہ 1 کروڑ 20 لاکھ  ڈالر مالیت  کا سامان پہنچاتی رہی۔

Poster showing three women pulling cultivating machine in field (Library of Congress)
جب کانگریس نے اپریل 1917 میں جنگ کا اعلان کیا، تو صدر وُڈرو ولسن نے ہُوور کو یوایس فوڈ ایڈمنسٹریشن بنانے کی ذمہ داری سونپی جس کے تحت امریکیوں پر زور دیا گیا کہ وہ کھانے میں کفایت کریں اور کاشتکاروں سے کہا گیا کہ وہ پیداوار میں اضافہ کریں۔ اس قسم کے پوسٹرز ملک میں ہرجگہ دکھائی دینے لگے۔ لوگوں کے جذبۂ حب الوطنی کو کامیابی سے ابھارا گیا جس کی وجہ سے راشن بندی کی ضرورت نہ پڑی۔ (Library of Congress)

 

مقبوضہ بیلجیم اور شمالی فرانس میں سکولوں کے بچوں کو  فاضل “ہُوور لنچ” کے ساتھ ساتھ  چکنائی، کوکو، شکر، اور آٹے سے بنے ہوئے توانائی سے بھرپور بسکٹ دیئے جانے لگے۔ چار برس کے عرصے میں، ہُوور کے اعداد و شمار کے مطابق، ریلیف کمیشن نے غذا اور دیگر امدادی اشیاء کی شکل میں، (1920 کے ڈالروں کے حساب سے) 61 کروڑ 50 لاکھ  ڈالر مالیت کا سامان فراہم کیا۔

امریکہ کے جنگ میں شامل ہوجانے کے چند ہی روز بعد صدر وڈ روولسن نے ہُوور کو امریکہ بلا لیا۔ وطن واپسی کے بعد  ہُور نے یو ایس فوڈ ایڈمنسٹریشن [خوراک کے امریکی ادارے] کی بنیاد رکھی تا کہ امریکی اور اتحادی فوجوں کے لیے کافی غذائی اشیاء پیدا کی جا سکیں اور امریکی عوام کو کھانے پینے کی چیزیں مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ  جنگ سے متاثرہ یورپ کے لوگوں کے لیے امدادی کاروائیاں جاری رکھی جا سکیں۔

اس ادارے مین ان کا عہدہ ایڈمنسٹریٹر کا تھا، لیکن اخباروں نے ان کے کام کی حمایت کرتے ہوئے، انہیں امریکہ کا “خوراک کا حاکم” اور “خورا کا ڈکٹیٹر” کہنا شروع کر دیا۔ ایک بار پھر ہُوور نے کاروباری شخصیتوں کی مدد حاصل کی، سرخ فیتے اور دفتری کارروائی کو نظرانداز کرتے ہوئے، بھرپور عوامی حمایت حاصل کرنے میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

فوڈ ایڈمنسٹریشن کا نعرہ تھا “غذائی اشیاء جنگ جیتیں گی”، اور یہ نعرہ پوسٹروں اور بٹنوں پر نمایاں تھا۔

Two World War I posters (Library of Congress)
پہلی عالمی جنگ کے زمانے کے یو ایس فوڈ ایڈمنسٹریشن کے پوسٹر۔ (Library of Congress)

 

ہُوور نے راشن بندی کا سہارا نہیں لیا۔ اس کے بجائے انھوں نے لوگوں پر زور دیا کہ وہ ” پیر کوگوشت کا ناغہ” اور “بدھ کو گندم کا ناغہ” کریں۔

بعد میں انھوں نے بتایا، “ہمیں معلوم تھا کہ اگرچہ امریکیوں کو عظیم قربانیاں دینے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی ان پر دباؤ ڈالے۔”

یہ طریقہ کارگر ثابت ہوا۔

کاشتکاروں کو جب گیہوں، گوشت اور دوسری غذائی اشیاء کی قیمتوں کی ضمانت مل گئی، تو انھوں نے زبردست فصلیں پیدا کیں اور “امریکی سپاہی اور ملاح دنیا بھر میں سب سے اچھی غذا کھانے والے فوجی مانے جانے لگے۔”

ہُوور کا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔

جنگ بندی کے چھ روز بعد، ہُوور بحری جہاز کے ذریعے یورپ روانہ ہوگئے اور وہاں پر فاتح اور مفتوح  دونوں طاقتوں کے علاقوں کو بھوک سے بچانے کے کام کا آغاز کر دیا۔ ہُوور اپنی خودنوشت سوانح میں لکھتے ہیں، “دشمن سے آزاد کرائے گئے اور دشمن کے علاقوں کے ہر قصبے اور شہر میں بے کس و مجبور، یتیم، بھوک سے بے حال، بیمار اور کمزور بچوں کی بھرمار تھی۔” امریکہ کی نئی ریلیف ایڈمنسٹریشن نے جس کے وہ سربراہ تھے، جرمنی، آسٹریا، ہنگری، پولینڈ اور دوسرے ملکوں میں کروڑوں بچوں کو خوراک فراہم کی۔”

وہ لکھتے ہیں، “عورتوں اور بچوں کا بھوکا رہنا میرے عقیدے کے خلاف تھا۔”

Group of children in need of food and clothing (Library of Congress)
پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ننگے پیر روسی بچے، کھانے اور کپڑوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہُوور کی امریکن ریلیف ایڈمنسٹریشن نے قحط کے زمانے میں امریکن فرینڈز سروس کمیٹی، ریڈ کراس اور دوسری فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے ان بچوں میں غذائی اشیاء اور کپڑے تقسیم کیے۔ (Library of Congress)

 

حتّیٰ کے سوویت یونین کو بھی، جس کے امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں تھے، ایک قحط کے دوران بھاری امداد ملی۔ مشہور روسی ادیب میکسم گورکی نے 1922ء  میں ہُوور کو لکھا، “آپ کی امداد تاریخ میں ایک منفرد اور عظیم کارنامے کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ یہ عظیم ترین تعریف کی مستحق ہے۔ یہ اُن کروڑوں روسیوں کی حافظے میں جنہیں آپ نے موت سے بچایا ہے، ایک طویل عرصے تک محفوظ رہے گی۔”

اس وقت تک، ہُوور صدر وارن ہارڈنگ اور صدر کیلون کُولج کی کابینہ میں وزیرِ تجارت کی حیثیت سے کام کر چکے تھے۔ 1928ء میں وہ صدر منتخب ہوئے اور اپنی چار سالہ مدت تک صدر رہے۔ 1932ء میں دوسری مدت کے صدارتی انتخاب میں وہ عظیم کساد بازاری کے دور میں، فرینکلن روز ویلٹ سے ہار گئے۔

چودہ سال بعد، اس سے بھی زیادہ ایک اور خوفناک جنگ کے بعد، صدر ہیری ٹرومین نے 71 سالہ ہُوور کو ایک دوسرے عالمی امدادی مشن کی ذمہ داری کے لیے طلب کیا۔ ہُوور فوری طور پر حرکت میں آ گئے اور انھوں نے امریکی عوام کی حمایت حاصل کرلی۔ ریڈیو پر قوم کے نام ایک خطاب میں انھوں نے کہا، “80 کروڑ لوگوں کے سروں پر — یعنی کرہ ارض کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کے سروں پر، بھوک منڈلا رہی ہے۔”

انھوں نے یورپ اور ایشیا کے غذائی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کا دورہ کیا، اور ان ملکوں کے درجنوں بادشاہوں اور وزیرِ اعظموں کو قائل کیا کہ وہ بین الاقوامی امدادی کوششوں میں زیادہ سے زیادہ ہاتھ بٹائیں۔

اس پر صدر ٹرومین اُن کے مشکور تھے اور انہوں نے ہُوور کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے “دنیا کی بھلائی کے لیے ایک شاندار کارنامہ انجام دیا۔”

ابتدائی طور پر یہ مضمون 29 مارچ 2017 کو شائع کیا گیا۔