جوڈتھ ہیومن کی دیرپا میراث [ویڈیو]

عمارت کے اندر وہیل چیئر کے لیے بنی راہداری پر وہیل چیئر پر بیٹھی جوڈتھ ہیومن مسکرا رہی ہیں (D.A. Peterson/State Dept.)
جوڈتھ ہیومن نے اپنی زندگی کے 50 برس معذوروں کے حقوق پر خرچ کیے (D.A. Peterson/State Dept.)

 

معذور افراد کے حقوق کے اولین علمبرداروں میں شامل سرگرم کارکن جوڈتھ ہیومن ہفتہ 4 مارچ کو وفات پا گئیں۔ ہیومن نے اپنی زندگی میں معذور افراد کے حقوق کے دیگر قوانین کے علاوہ اُس قانون سازی کے حق میں بھی جدوجہد کی جس کے نتیجے میں معذوریوں کے حامل امریکیوں کا وفاقی قانون منظور ہوا۔

2015 میں ہیومن جب امریکی محکمہ خارجہ میں معذوروں کے بین الاقوامی حقوق کی خصوصی مشیر تھیں تواس وقت وہ شیئر امریکہ میں معذور افراد کے تعلیمی حقوق کے بارے میں لکھا کرتی تھیں۔

وہ نیویارک سٹی کے بروکلین بورو میں پلی بڑھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں چوتھی جماعت تک سکول جانے کی اس لیے اجازت نہیں تھی کیونکہ وہ وہیل چیئر استعمال کرتی تھیں اور چل نہیں سکتی تھیں۔

لیکن میرے والدین اس بات پر بضد تھے کہ میں اپنے بھائیوں کے برابر تعلیم حاصل کروں تاکہ اگر میں شادی نہ کروں تو میں اپنی مدد آپ کر سکوں۔ (یاد رہے اس وقت خواتین سے عام طور پر گھر کے اخراجات پورے کرنے کی توقع نہیں کی جاتی تھی)۔ اُن کے والدین نے دوسرے بچوں کے والدین کے ساتھ مل کر بعض مقامی ثانوی سکولوں کو مجبور کیا کہ وہ معذور طلباء کے لیے سکولوں کو رسائی کے قابل بنائیں۔

اس کے بعد میں نے نیویارک میں وہیل چیئر پر پڑھانے کے لیے سخت جدوجہد کی۔ جس میں مجھے کامیابی  ملی اور میں نے تین سال تک نیویارک میں پڑھایا۔ اس طرح مجھے نیویارک میں وہیل چیئر پر پڑھانے والے پہلا فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

تعلیم عظیم مساوات پیدا کرتی ہے: اس سے لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے، پسماندہ لوگوں اور بالخصوص مجھ جیسے اُن لوگوں کے لیے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں جو معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔۔

حمزہ یاکا اور ایمبر بکلی-شیکلی دو معذور طلباء نے انٹرن کی حیثیت سے امریکہ کے محکمہ خارجہ میں کام کیا۔ اُن کی کہانیاں اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ مشمولہ تعلیم فروغ پا رہی ہے۔

جیسا کہ قانون کے تحت ضروری ہے حمزہ اور ایمبر دونوں نے مربوط سکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ مگر جب میں سکول میں تھی تو اُس وقت یہ قانون موجود نہیں تھا۔ حمزہ نے 2014 میں کیلی فورنیا یونیورسٹی برکلے سے گریجوایشن کی۔ اُن کے ساتھیوں نے اُس وقت ناراضگی کا اظہار کیا جب اُن کے خیال میں حمزہ کو ملنے والی سہولتیں (جیسے کہ املا کے ٹیسٹ کے لیے کمپیوٹر کا ہونا) غیر منصفانہ تھیں۔ جبکہ ایلانائے یونیورسٹی، اربانا-شمپین میں گریجوایشن کی طالبہ، ایمبر کے قریبی سکولوں میں ایسے ساتھی تھے جنہیں بتایا گیا تھا کہ وہ صرف اِس صورت میں سکول آ سکتے ہیں اگر وہ اپنی وہیل چیئریں ساتھ نہ لائیں۔

والدین اور طلباء کے لیے ضروری ہے کہ انہیں اپنے حقوق کا علم ہو۔ امریکہ میں والدین کی مدد کے لیے معلوماتی مراکز موجود ہیں۔ ملکی قوانین کے برسوں پر پھیلے نفاذ کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ معذور طلبا ثانوی سکولوں میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد یا تو ملازمتیں کر رہے ہیں یا اعلٰی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

جب 1949 میں مجھے پولیو تھا اُس کے بعد سے اب تک ہم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے۔ مگرہمیں ابھی بہت آگے تک جانا ہے۔ ہمارے قوانین اُس طرح نافذ نہیں کیے جاتے جیسے انہیں نافذ کیا جانا چاہیے۔ مساوات اور انسانی حقوق کے فروغ کے لیے میں کام کر رہی ہوں اور میں آپ کو یہ سبق سکھانا چاہتی ہوں: معذوریوں کے حامل افراد کو وہی حقوق اور مواقع حاصل ہونے چاہیئیں جس طرح کہ سب لوگوں کو حاصل ہیں۔ یہ حقوق اور یہ مواقع اُن کو مہیا کر کے ہم اپنے معاشرے کو، اپنے ملک اور دنیا کو بہتر بنا سکتے ہیں اور یقیناً بہتر بناتے ہیں۔

نوٹ: اِس مضمون میں شامل ویڈیو انگریزی زبان میں ہے۔

بنیادی طور پر یہ مضمون 18 جون 2015 کو شائع ہوا۔