یہ لوگ لمبے حفاظتی لباس، مضبوط خود، لیبارٹریوں کے کوٹ اور دیگر حفاظتی اشیا پہن کر کام کرتے ہیں۔ اپنے کام کے سلسلے میں وہ خلائی دور کی ٹکنالوجی سے مزین چمکتے دمکتے پلانٹوں اور بموں سے پیدا ہونے والے دھواں اگلتے گڑھوں سے اٹی بستیوں میں جاتے ہیں۔
اُن کا مشن جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا اور ایسے معموں کو حل کرنا ہوتا ہے جن میں یہ پتہ چلانا ہوتا ہے کہ آیا کوئی حملہ کیمیائی ہتھیاروں سے کیا گیا ایک ایسا حملہ ہے جیسا کہ حال ہی میں شام کے شہر دوما میں کیا جانے والا حملہ تھا جس میں درجنوں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے۔
یہ لوگ ویانا میں واقع ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے اور ہالینڈ کے شہر ہیگ میں واقع کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کی تنظیم کی معائنہ کار ٹیموں کے اراکین ہوتے ہیں۔
اِن دونوں اداروں سے تعلق رکھنے والی ٹیمیں بین الاقوامی اختیارات کے تحت دنیا کی قوموں کو جوہری اسلحہ تیار نہ کرنے اور کیمیائی ہتھیار استعمال نہ کرنے کا پابند بناتی ہیں۔
سوٹ کیسوں میں اپنا سامان لیے یہ ٹیمیں ملکوں کے جوہری اور کیمیائی پلانٹوں کے معمول کے معائنوں کے لیے دنیا بھر میں جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کسی ایسے واقعہ کے بعد ایک مختصر نوٹس پر اپنے ارکان کو معائنے کے لیے بھی روانہ کرتی ہیں جیسا کہ 7 اپریل کو دوما میں پیش آیا جس میں 43 افراد مارے گئے۔
ایٹمی توانائی کا بین الاقوامی ادارہ ایک خود مختار ادارہ ہونے کے باوجود اقوام متحدہ کے نظام کا حصہ ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کی تنظیم ایک آزاد ادارہ ہے۔ تاہم یہ اقوام متحدہ کے ساتھ قریبی تعاون سے کام کرتا ہے۔
معلومات کی تصدیق
جوہری معائنہ کار جوہری پلانٹوں میں نصب آلات کی سطحوں پر جمع گرد کو ایک پٹی سے پونچھ کر حاصل کرتے ہیں۔ اس گرد کا تجزیہ کر کے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ آیا کوئی ملک ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے یورینیم یا پلوٹونیم کی خفیہ طور پر افزودگی تو نہیں کر رہا۔
ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے میں درجنوں ممالک سے تعلق رکھنے والے 800 معائنہ کار کام کرتے ہیں۔ ایک ویڈیو میں اس کام کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک معائنہ کار، پیبلو الواریز کہتے ہیں کہ “ہمارا مشن یہ تصدیق کرنا ہوتا ہے کہ جو معلومات انہوں نے ہمیں دی ہیں وہ واقعی سچی ہیں۔”
کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کی تنظیم میں 90 معائنہ کاروں سمیت عملے کے اراکین کی تعداد 450 افراد پر مشتمل ہے۔ اس تنظیم کو اس کی کارکردگی کے صلے میں 2013 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔
اس کے معائنہ کار کیمیائی حملوں کا شکار ہونے والوں، عینی شاہدین اور طبی عملے کے اراکین کے انٹرویو کرتے ہیں اور بعض اوقات پوسٹ مارٹموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ وہ تجزیئے کرنے کی خاطر موقع واردات اور دنیا بھر میں پھیلی دو درجن لیبارٹریوں سے کیمیائی، ماحولیاتی اور بائیومیڈیکل نمونے اکٹھے کرتے ہیں۔
شام سمیت کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی کے اس معاہدے پر دستخط کرنے والے تمام کے تمام 192 ممالک نے معائنہ کاروں کو اپنے ہاں کام کرنے کی اجازت دینے پر اتفاق کر رکھا ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس جنگ کے دوران دونوں فریقین نے مسٹرڈ گیس اور اعصاب کو متاثر کرنے والے دیگر موادات کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا تھا۔
شام نے 2013 کے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے بعد اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں کو بین الاقوامی معائنہ کاروں کی زیرنگرانی تباہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم اسد حکومت اور باغیوں دونوں پر اندھا دھند ہلاک کرنے والے اعصاب کو متاثر کرنے والے موادات کے ساتھ حملے کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔