جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے امریکہ کی غیر متزلزل حمایت

50 سال سے زیادہ عرصے تک جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد کی، تخفیفِ اسلحہ پر ہونے والی پیشرفت کو ممکن بنایا، اور پرامن ایٹمی ٹیکنالوجیوں کو دیرپا عالمی  ترقی میں معاونت کرنے کے قابل بنایا۔

امریکہ اس تاریخی معاہدے کو برقرار رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔ بحرانوں کے وقت یہ معاہدہ سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔

 ایڈم شائنمین (State Dept.)
ایڈم شائنمین (State Dept.)

سفیر ایڈم شائنمین جوہری عدم پھیلاؤ پر صدر کے نمائندہ خصوصی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ این پی ٹی کی مستقل کامیابی کا دارومدار اس معاہدے کے تمام فریقین کی اجتماعی اور مسلسل کوششوں پر ہے۔

نیو یارک میں یکم سے لے کر 26 اگست تک ہونے والی دسویں این پی ٹی جائزہ کانفرنس میں امریکہ این پی ٹی کے شراکت داروں پر زور دے گا کہ وہ این پی ٹی کے عدم پھیلاؤ، تخفیف اسلحہ اور جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کے فروغ کے بنیادی ستونوں کو مضبوط کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔

شائنمین نے 21 جولائی کو ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا کہ “اکٹھے مل کر ہمیں اس موقعے کو فوری جوہری چیلنجوں سے نمٹنے، معاہدے کے فوائد کو پھیلانے کے لیے نئے مواقع پیدا کرنے، اور جوہری اسلحے کی تخفیف کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کرنے لیے استعمال کرنا چاہیے۔”

شائنمین نے کہا کہ اس سال کی کانفرنس فریقین کے لیے بحران کے وقتوں میں جوہری عدم پھیلاؤ کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہارکرنے کا ایک موقع ہے۔ روس نے یوکرین میں ایک بلاجواز جنگ چھیڑ رکھی ہے اور خطرناک کارروائیاں کرنے کے ساتھ ساتھ کشیدگی بڑہانے والے بیانات بھی دے رہا ہے۔

5 مارچ 1970 کو نافذالعمل ہونے والا این پی ٹی، ایک بنیادی بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کے سب پابند ہیں۔ اس کا مقصد جوہری پھیلاؤ کو روکنا ہے اور اسے تاریخ میں جوہری معاملات سے متعلق کسی بھی معاہدے کے مقابلے میں سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے

این پی ٹی کے فریق ممالک اس معاہدے کے نفاذ کا جائزہ لینے کے لیے ہر پانچ سال بعد ایک کانفرنس میں ملتے ہیں۔ این پی ٹی کی دسویں جائزہ کانفرنس 2020 میں ہونا تھی مگر کووڈ-19 عالمی وباء کی وجہ سے یہ کانفرنس ملتوی کر دی گئی تھی۔

اس کانفرنس میں امریکی وفد آنے والی نسلوں کے لیے این پی ٹی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر مندرجہ ذیل نکات پرکام کرے گا:-

  • بین الاقوامی عدم پھیلاؤ کے نظام کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ ایران، شمالی کوریا اور شام کی طرف سے درپیش چیلنجوں کی طرف توجہ مبذول کرانا۔
  • اِس معاہدے کے جوہری تخفیف اسلحہ کے مقاصد کو فروغ دینا اور جوہری جنگ کے خطرات کو کم کرنا۔
  • ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کی پیشہ ورانہ مہارت، معروضیت اور آزادی کی حمایت کرنا۔
  • جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کا روس کے ناعاقبت اندیش رویے سے موازنہ کرنا۔

ہتھیاروں پر قابو پانے میں امریکہ کا کردار قائدانہ ہے۔ امریکہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

جب این پی ٹی [معاہدہ] کیا گیا تو سرد جنگ اپنے عروج پر تھی۔ جوہری ہتھیاروں کے امریکی ذخیرے سے متعلق جاری کردہ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے اس معاہدے کے بعد اپنے جوہری ہتھیاروں میں 88 فیصد کمی کی ہے۔ عالمی سلامتی کے مسائل پر نظر رکھنے والی امریکی سائنس دانوں کی فیڈریشن کے مطابق، 1986 میں اپنی انتہا کے بعد سے عالمی ذخیرے میں 80 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔

 بڑی جگہ پر گول میز کے گرد بیٹھے لوگ (© Bebeto Matthews/AP Images)
26 جنوری 2020 کو اُس وقت دورے پر آئے جرمن وزیر خارجہ، ہائیکو ماس کی موجودگی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے نمائندے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ (© Bebeto Matthews/AP Images)

امریکہ اس کانفرنس میں جوہری ٹکنالوجی کے پرامن استعمال تک رسائی کو بڑہانے کے لیے نئے طریقوں کو بھی فروغ دے گا۔ جوہری ٹکنالوجی کے پرامن استعمال سے ہم صاف توانائی پیدا کر سکتے ہیں، کینسر کا علاج کر سکتے ہیں، پینے کے پانی کو صاف کر سکتے ہیں اور فصلوں کی پیداوار  بڑہا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے “پرامن استعمال پر ٹھوس مکالمہ ” نامی نئے منصوبے کے فروغ پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

2015 کے بعد  سے امریکہ جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال میں مدد کرنے کی خاطر آئی اے ای اے کے  پروگراموں کے لیے 395 ملین ڈالر سے زیادہ کی رقم دے چکا ہے۔ نومبر 2020 میں امریکہ نے آئی اے ای اے کے پرامن استعمال کے پروگرام کے لیے اگلے پانچ سالوں میں اضافی 50 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔

شائنمین نے کہا کہ “امریکہ سب کے لیے محفوظ تر اور خوشحال تر دنیا کو یقینی بنانے کے لیے تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اس سے کم کام کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔”