جوہری معاہدے کی ایرانی جارحیت کو روکنے میں ناکامی

صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے امریکی دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا، “مجھ  پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ موجودہ معاہدے کے بوسیدہ اور ناقص ڈھانچے سے ہم ایران کے جوہری بم بنانے کے خطرے کو نہیں روک سکتے۔”

2015 میں ہونے والے اس معاہدے کا مقصد جسے رسمی طور پر “عمل کا مشترکہ جامع منصوبہ” (جے سی پی او اے) کہا جاتا ہے، ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ ایران “علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے حوالے سے مثبت کردار ادا کرے۔”

جے سی پی او اے معاہدے کے کیے جانے کے دو سال اور10 ماہ کے عرصے کے دوران ایرانی حکومت نے مندرجہ ذیل کام کیے:-

  • ایرانی دفاعی بجٹ میں 37 فیصد اضافہ کیا۔
  • ہر سال شام میں بشار الاسد کی حکومت کو اربوں ڈالر فراہم کیے۔
  • حماس اور حزب اللہ جیسے دہشت گرد گروہوں کو مجموعی طور پر تقریباً ایک ارب ڈالر کی امداد دی۔
  • اپنے میزائل کے ذخائر میں اضافہ کیا۔
Map of countries within range of Iranian missiles (State Dept./S. Gemeny Wilkinson SOURCE: CSIS Missile Defense Project)
(State Dept./S. Gemeny Wilkinson)

صدر ٹرمپ نے کہا، “یہ معاہدہ ایران کے جوہری عزائم  روکنے کے علاوہ جوہری ہتھیاروں کو لے جانے والے میزائلوں کی تیاری کو روکنے میں بھی ناکام رہا ہے۔”

امن کو لاحق ایک مستقل خطرہ

 بین الاقوامی تزویراتی مطالعات کے مرکز کے اعلٰی عہدیدار، ٹام کراکو کہتے ہیں کہ اس معاہدے میں ایک خامی تو یہ ہے کہ خصوصی طور پر یہ معاہدہ ایران کے میزائل پروگرام کو نہیں روکتا۔ اُن کا کہنا ہے، “ایران کا میزائل پروگرام مشرق وسطی  میں میزائلوں کا سب سے بڑا اور جامع پروگرام ہے۔”

ایران کے میزائلوں کا ذخیرہ قریبی اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے ہزاروں بیلسٹک اور کروز میزائلوں پر مشتمل ہے۔ اسرائیل اور جنوب مشرقی یورپ اِن میزائلوں کی زد میں ہیں۔

Large missiles on display along with large poster (© Nazanin Tabatabaee Yazdi/TIMA/REUTERS)
ستمبر 2017 میں ایران میں میزائلوں کے پیچھے ایران کے اعلٰی راہنما آیت اللہ علی خامینائی کی ایک تصویر۔ (© Nazanin Tabatabaee Yazdi/TIMA/REUTERS)

حال ہی میں یعنی مارچ 2018 میں  ایران کے انقلابی گارڈ کی  فضائی ڈویژن کے سربراہ بریگیڈیر نے ایک خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے  کہا، “ہماری [میزائلوں] کی پیداوار میں ماضی کے مقابلے میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔”

اس وقت بھی جب یہ معاہدہ نافذالعمل تھا ایران مشرق وسطی اور اس سے باہرتباہی کا باعث بنا۔ مثال کے طور پر، اسرائیلی فوج کے مطابق شام میں موجود ایرانی دستوں نے10  مئی 2018 کو اسرائیل کے زیر کنٹرول گولان کی پہاڑیوں پر20 راکٹ پھینکے۔ یہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر پہلا براہ راست حملہ تھا۔ عمومی طور پر اسرائیل اور خطہ کے دوسرے ممالک پر حملے کے لیے ایران اپنے نیابتی گروہوں کو استعمال کرتا ہے۔

اس کے علاوہ، کراکو نے کہا، “یمن کی میزائلوں کی جنگ میں سعودی اور اماراتی ہر ہفتے ایرانی میزائلوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ یہ جنگ  2015 کے اوائل سے جاری ہے۔”

یہ کاروائیاں امن و سلامتی میں مثبت کردار ادا کرنے کی نیت کو ظاہر نہیں کرتی۔ ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ اس کے برعکس ایران کے میزائل پروگرام کو اگر حال ہی میں اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سرعام لائی جانے والی دستاویزات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو اس بات کو ماننے کی ٹھوس وجوہات موجود ہیں کہ ایران کا میزائل پروگرام جے سی پی او اے کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

ہیریٹیج فاوًنڈیشن کے پیٹر بروکس کہتے ہیں، “جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے لیے میزائلوں کا استعمال بہت ہی عام ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ ان دو الگ الگ پروگراموں کا مقصد ایک ہے اور وہ یہ  ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی استعداد کا ایک مکمل پروگرام دیا جا سکے۔”

جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس معاہدے سے ” سکون نہیں لوٹا، یہ امن نہیں لایا، اور نہ ہی یہ ایسا کبھی کرسکے گا۔”