جوہری ہتھیار [انسانی] بقا کے لیے خطرہ ہیں۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ جوہری جنگ کو روکنے اور تاریخ ساز جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کو مضبوط کرنے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔
3 جنوری کو ایک مشترکہ بیان میں امریکہ اور جوہری ہتھیار رکھنے والے دیگر این پی ٹی ممالک نے جنگ سے بچنے اور اسٹریٹجک خطرات کو کم کرنے کی کوششوں کو “اولین ترجیحات” قرار دیا اور جوہری تخفیف اسلحہ کو جاری رکھنے کا عہد کیا۔
امریکہ، فرانس، عوامی جمہوریہ چین، روس اور برطانیہ نے اس مشترکہ بیان میں کہا، “ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جوہری جنگ نہ تو جیتی جا سکتی اور نہ ہی یہ کسی صورت میں لڑی جانی چاہیے۔” اسی بیان میں انہیوں نے “ہتھیاروں کی اُس دوڑ کو روکنے” پر زور دیا “جس سے فائدہ تو کسی کا نہیں ہوگا مگر سب خطرات سے دوچار ہو جائیں گے۔”
مذکوروہ بیان میں کہا گیا ہے، “ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسے ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کو بہرصورت روکا جانا چاہیے۔”
جوہری ہتھیاروں سے لاحق خطرات کو کم کرنے میں این پی ٹی کی بالادستی کو برقرار رکھنے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
فریقین کا ارادہ ہے کہ دسویں این پی ٹی جائزہ کانفرنس نیویارک میں منعقد کی جائے۔ اس کانفرنس کے دوران امریکہ این پی ٹی کے دیگر اراکین کے ساتھ مل کر اس معاہدے کے تحفظ اور مضبوطی کے لیے کام کرے گا۔ این پی ٹی نے 50 سال سے زیادہ عرصے سے جوہری جنگ کو روکنے میں مدد کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ہتھیاروں کے کنٹرول اور بین الاقوامی سکیورٹی کی انڈر سیکرٹری، بونی جینکنز نے 16 نومبر کو لندن کے تھنک ٹینک، چیٹ ہیم ہاؤس کو بتایا، “بائیڈن-ہیرس انتظامیہ ہتھیاروں کے کنٹرول اور عدم پھیلاؤ پر امریکی قیادت کو بحال کرنے اور اکیسویں صدی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنے شراکت داروں اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔”
گزشتہ برس جوہری خطرات اور حادثات کو کم کرنے کی کوشش میں امریکہ اور روس نے ہتھیاروں کے کنٹرول کے “سٹارٹ” نامی نئے معاہدے میں توسیع کی اور اسٹریٹجک استحکام کے مذاکرات کا دوبارہ آغاز کیا۔

این پی ٹی پر 1968 میں دستخط کیے گئے اور اس معاہدے پر 1970 سے عملدرآمد شروع ہوا۔ اس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا، جوہری تخفیف اسلحہ کو بڑہاوا دینا اور جوہری ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال پر تعاون کو فروغ دینا ہے۔
چونکہ سرد جنگ کے عروج کے دوران این پی ٹی پر مذاکرات ہوئے، اس لیے امریکہ کے ذخیرے کے بارے میں جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق امریکہ اپنے جوہری ہتھیاروں میں 88 فیصد کمی لا چکا ہے۔ عالمی سکیورٹی کے مسائل پر نظر رکھنے والی تنظیم، امریکی سائنس دانوں کی فیڈریشن کے مطابق 1986 میں اپنے عروج کے بعد سے اب تک عالمی ذخیرے میں 80 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔
این پی ٹی کے فریق ممالک اس معاہدے کے نفاذ کا جائزہ لینے کے لیے ہر پانچ سال بعد ملاقات کرتے ہیں۔ دسویں این پی ٹی جائزہ کانفرنس 2020 میں ہونا تھی لیکن کووڈ-19 کی وجہ سے اسے اس برس تک ملتوی کر دیا گیا تھا
جینکنز نے این پی ٹی جائزہ کانفرنس کو اجتماعی سلامتی کو فروغ دینے کا ایک اہم موقع قرار دیا۔ امریکہ اس کانفرنس میں مندرجہ ذیل اقدامات کی کوشش کرے گا کہ:
- جوہری سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی جوہری توانائی کے ادارے کے اختیارات کو تقویت دی جائے۔
- جوہری تخفیف اسلحہ کو فروغ دیا جائے اور اسٹریٹجک خطرات کو کم کیا جائے۔
- جوہری توانائی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال تک رسائی کو بڑہایا جائے جس میں خاص طور ترقی پذیر ممالک کے لیے صاف توانائی اور زرعی پیداوار میں اضافہ بھی شامل ہے۔
جینکنز نے کہا کہ امریکہ ایران، شام اور شمالی کوریا کی حکومتوں سمیت، پھیلاؤ کے چیلنجوں کے بارے میں آواز اٹھانے سے بھی نہیں ہچکچائے گا۔
جینکنز نے کہا کہ اگرچہ این پی ٹی نے امن اور خوشحالی کو فروغ دینے میں مدد کی ہے تاہم اس معاہدے پر عملدرآمد کی راہ میں اب بھی مشکلات موجود ہیں۔ اس کانفرنس میں آنے والی نسلوں [کی بہتری] کے لیے امریکہ این پی ٹی کے کردار اور موثرپن کو مضبوط بنانے کے لیے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
جینکنز نے کہا، “کوئی بھی قوم جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ سے لاحق خطرات پر خاموش رہنے کی متحمل نہیں ہو سکتی، اور نہ ہی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جوہری توانائی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کرنے، اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کو پورا کرنے، اور ایک بہتر دنیا کی تعمیر کرنے کے وسیع امکانات کو نظر انداز کر سکتی ہے۔”