امریکی سفارت کار سٹیفن بائیگن کہتے ہیں کہ کلی طور پرقابل تصدیق جوہری ہتھیاروں سے پاک شمالی کوریا کے حتمی مقصد میں کامیابی امریکہ اور شمالی کوریا کے تعلقات کو “بنیادی طور پر تبدیل کرکے رکھ دے گی” اور شمالی کوریا کے شہریوں پر نئے مواقعوں کے دروازے کھولے گی۔
وزارت خارجہ کے شمالی کوریا کے لیے نمائندہ خصوصی بائیگن نے31 جنوری کو پالو آلٹو، کیلی فورنیا میں سٹینفورڈ یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں کہا کہ سابقہ رہنماؤں کے مقابلے میں امریکہ اور شمالی کوریا کے موجودہ رہنما “صورت حال اور سوچ دونوں کے حساب سے مختلف ہیں۔”
بائیگن نے کہا کہ صدر ٹرمپ “جزیرہ نما کوریا پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے 70 سالہ پرانی جنگ اور مخاصمت کو ختم کرنے کا پکا اور ذاتی عزم کیے ہوئے ہیں،” جب کہ چیئرمین جونگ کِم ان “جوہری ہتھیاروں کے خاتمے اور اپنی توانائیوں کا رخ مکمل طور پر اپنے عوام کی ضروریات پوری کرنے اور شمالی کوریا کی معشیت کو ترقی دینے کی طرف موڑنے کے اپنے ارادے کا اظہار کر چکے ہیں۔”

امریکی اہلکار اپنے شمالی کوریائی ہم منصبوں کو بتا چکے ہیں کہ وہ جون 2018 میں سنگاپور میں ٹرمپ اور کِم کے وعدوں کی تکمیل کے لیے کام کریں گے۔ اس طرح کرنے سے دونوں ممالک شمالی کوریا کے عوام کے لیے روشن مستقبل اور نئے مواقعوں کی ممنصوبہ بندی کر سکیں گے۔ یہ مواقعے اس وقت پیدا ہوں گے جب پابندیاں اٹھا لی جائیں گیں اور جزیرہ نما کوریا میں امن لوٹ آئے گا۔ مگر اس کی شرط یہ ہے کہ شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں کا ایسے طریقے سے خاتمہ کرے جو حتمی اور قابل تصدیق ہو۔
بائیگن نے کہا کہ گو کہ بہت سا کام کرنا ابھی باقی ہے مگر “ہمیں ہونے والی پیش رفت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔”
بائیگن نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ شمالی کوریا سے متعلق اپنی سوچ کے بارے میں آنکھیں کھلی رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا، “اگر سفارتی عمل ناکام ہوجائے تو ضروری ہے کہ ہمارے پاس متبادلات ہوں — جو کہ ہمارے پاس ہیں۔”
انہوں نے کہا اس کے باوجود آگے بڑھنے کی ترغیبات زبردست ہیں۔
“صدر ٹرمپ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اگر شمالی کوریا چیئرمین کِم کے جوہری ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے وعدے کا پاس کرے گا تو اس کے جواب میں امریکہ اُن تمام چیزوں سے کہیں آگے تک جائے گا جن کے ممکن ہونے کے بارے میں پہلے کبھی بھی سوچا گیا ہو۔”