جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے 50 برس

بیسویں صدی کے وسط میں پوری دنیا میں ملکوں کی جوہری ہتھیار بنانے کی دوڑ لگی ہوئی تھی اور کرہ ارض پر جوہری جنگ کے خطرات کے سائے منڈلا رہے تھے۔

تاہم جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کی وجہ سے یہ تاریک مستقبل کبھی حقیقت نہ بن پایا۔ جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔

دو آدمی ہاتھ ملا رہے ہیں جبکہ دوسرے ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ (© TASS/Getty Images)
1968 میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سوویت یونین کے آندرے گرومیکو(درمیان میں) برطانیہ کے سر جیفری ہیریسن سے مصافحہ کر رہے ہیں جبکہ امریکی سفیر لیویلین تھامسن ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ (© TASS/Getty Images)

این پی ٹی جوہری عدم پھیلاؤ میں مرکزی ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو تقویت ملتی ہے اور جوہری ہتھیاروں کے مزید پھیلاؤ کی روک تھام ہوتی ہے۔ امریکی سائنس دانوں کی فیڈریشن کے مطابق، آج 1950 کی دہائی کے بعد دنیا میں جوہری ہتھیاروں کے ذخیروں کی تعداد سب سے کم ہے۔

5 مارچ 1970 کو نافذالعمل ہونے والا اساسی بنیاد کا حامل یہ ایک ایسا عالمی معاہدہ ہے جو دنیا کے ممالک کو جوہری پھیلاؤ کو روکنے کا پابند بناتا ہے۔ تاریخ میں جوہری ہتھیاروں کے بارے میں کسی بھی دوسرے معاہدے کے مقابلے میں اس معاہدے کو سب سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔

این پی ٹی میں شامل ممالک نے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا:

  • جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا۔
  • جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے تعاون کو فروغ دینا۔
  • جوہری ہتھاروں سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ تخفیف اسلحہ کے مذاکرات کی نیک نیتی سے پیروی کرنا۔

سکریٹری خارجہ مائیکل آر پومپیو نے اپنے برطانوی اور روسی ہم منصبوں سمیت 2018ء کے ایک بیان (پی ڈی ایف ، 194 KB) میں کہا، “این پی ٹی نے سروں پر منڈلاتے جوہری اسلحے کے دنیا بھر میں پھیل جانے کے خطرات کو روکنے کے لئے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں کے لئے ضروری بنیاد فراہم کی ہے۔ این پی ٹی کی کامیابی پہلے سے لکھی ہوئی تقدیر نہیں ہے … اس کا انحصار ہماری ٹھوس اور مستقل کوششوں پر منحصر ہے۔”

این پی ٹی کے فریق ممالک اس معاہدے کے نفاذ کا جائزہ لینے اور مستقبل کی مشکلات سے نمٹنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ہر سال پانچ سال بعد اپنا اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ آئندہ اجلاس 27 اپریل سے لے کر 22 مئی نیویارک میں ہوگا۔