
امریکہ میں ہارنے والے سیاسی امیدواروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ جیتنے والے کی فتح کو عوامی سطح پر قبول کریں۔ اس کے جواب میں، نو منتخب صدر یا جیتنے والے دوسرے عہدے دار اپنے مخالف کی جائز حیثیت، فتحمند ہونے والے کی پالیسیوں کی مخالفت جاری رکھنے، اور مستقبل کے انتخابات میں حصہ لینے کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ روایت گذشتہ 200 برسوں سے زیادہ عرصے سے یا کم از کم 1800ء سے قائم ہے، جب صدر جان ایڈمز نے اپنے مخالف تھامس جیفرسن کے ہاتھوں اپنی شکست قبول کی تھی۔
اس واقعے کے ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصے کے بعد امریکیوں نے ایک سخت مقابلے کے بعد، پُرامن انتقالِ اقتدار کی ایک اور مثال کا دیکھی۔ 1960ء کا صدارتی انتخاب امریکی تاریخ کا سب سے زیادہ کانٹے دار مقابلہ تھا — ہارنے اور جیتنے والے امیدواروں کے درمیان فرق اتنا کم تھا کہ اس وقت کے نائب صدر رچرڈ ایم نکسن کے حامیوں نے ان پر زور دیا کہ وہ انتخاب کے نتائج کو چیلنج کریں۔ نکسن نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
انھوں نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، :اگر بالآخر ہم جیت بھی جائیں، تو بھی عالمی رائے عامہ کی شکل میں ہمیں جو قیمت ادا کرنی پڑے گی اور وسیع معنوں میں جمہوریت پر اس کا جو اثر ہوگا، وہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔”
اس کے بجائے نکسن نے بطور نائب صدر اپنا فرض انجام دیا، اور سرکاری طور پر سینیٹ کو جان ایف کینیڈی کے منتخب ہونے کی باضابطہ اطلاع دی۔
انھوں نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا، “گذشتہ 100 برسوں میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ صدارت کے کسی امیدوار نے ایک ایسے انتخاب کے نتیجے کا اعلان کیا جس میں ٖخود اسے شکست ہوئی، اور اُس نے اپنے مخالف کی فتح کا اعلان کیا۔ میرے خیال میں ہمارے آئینی نظام کے استحکام، اور امریکی عوام کی حکومتِ خود اختیاری کے اداروں کو ترقی دینے، ان کا احترام کرنے اور انہیں اعزاز بخشنے کی روایت کی، اس سے زیادہ شاندار کوئی اور مثال نہیں ہو سکتی۔ ہماری انتخابی مہموں میں، چاہے ان میں مقابلہ کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو، انتخاب کے نتیجے میں جیتنے اور ہارنے والے کے درمیان فرق کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، جو لوگ ہار جاتے ہیں، وہ ووٹروں کے فیصلے کو قبول کر تے ہیں اور جیتنے والوں کی حمایت کرتے ہیں۔”
نکسن نے درست قدم اٹھایا۔ تاہم انھوں نے جو کچھ کیا وہ توقع کے عین مطابق تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکیوں کو یقین ہے کہ ان کے انتخابات بالکل جائز اور صحیح ہوتے ہیں، اور وہ اس پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ ان کے نتائج کا احترام کیا جائے، اور اس کی ابتدا ایک لیڈر سے دوسرے لیڈر کو اقتدار کی پُرامن منتقلی سے ہو۔
ایک صحتمند جمہوریت میں، ہارنے والے امیدوار جانتے ہیں کہ کوئی فتح دائمی نہیں ہوتی اور جیتنے والے مستقبل کے مقابلوں کے ضابطے تبدیل نہیں کرسکتے۔ لہذاہ وہ آئندہ مقابلہ کر سکتے ہیں اور فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ جن لوگوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا ان میں رچرڈ نکسن بھی شامل تھے۔ انہون نے بعد میں الیکشن لڑا اور 1968 میں امریکہ کے 37ویں صدر منتخب ہوئے۔