نسل پرستی کے خاتمے اور نوبیل انعام جیتنے سے پہلے، نیلسن منڈیلا نے جیل میں 27 سال گزارے۔ ایک تنگ کوٹھڑی میں رہتے ہوئے اور ایک پتھریلی کان میں کام کرتے ہوئے، اُنہوں نے خراب صحت اور ایک لمبے عرصے تک بینائی سے محرومی کے دور جھیلے۔

اب یہ ممکن ہو چلا ہے کہ قیدیوں کو قید کے دوران بہتر انسانی سلوک کا تجربہ ہو۔ ایسا اقوام متحدہ  کے اُن نئے منڈیلا ضوابط  کی بدولت ممکن ہوا جو اِس سے پہلے “قیدیوں سے سلوک کے کم از کم معیار کا قانون” کہلاتے تھے۔

کوئی شخص نہیں چاہتا کہ وہ خود، اُس کے بھائی یا دوست اپنا مستقبل قید میں گزارے۔ پھر بھی یہ جاننا ایک قابل قدر بات ہے کہ اقوام متحدہ کے نئے قوانین کی بدولت اب عالمی معیارات  کیا کہتے ہیں: یعنی تمام قیدیوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا چاہیے، اُنہیں ایذا رسانی سے محفوظ رکھنا چاہیے، اور اُنہیں ایک صاف اور شائستہ ماحول میں رہنے کے قابل ہونا چاہیے۔

قید کے بعد، نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے صدر اور انسانی حقوق اور انصاف کے لیے ایک بین الاقوامی رہنما بن گئے۔ (Getty Images)

منڈیلا ضوابط کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:

  • ہر قیدی کے لیے مناسب ہوا، جگہ، روشنی، حرارت، ہوا کی نکاسی اور صفائی ضروری ہے۔
  • نہانے اور حفظانِ صحت کی سہولتیں مناسب، صاف اور معقول ہونا چاہئیں۔
  • غذائیت والے کھانے باقاعدگی سے اور اچھی طرح تیار کیے جانے چاہئیں۔
  • نفسیاتی اور دانتوں سمیت طبی دیکھ بھال کی سہولتیں، لازماَ دستیاب ہونا چاہیے۔
  • ظالمانہ، غیرانسانی یا ہتک آمیز سزائیں، اِن معیارات کی خلاف ورزی کرتی ہیں.
  • قیدی، دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ باقاعدہ رابطے کے مستحق ہیں۔

کیا ہرجگہ پر، ہر ایک جیل اقوام متحدہ کے معیارات پر پورا اُترے گی؟ غالباَ نہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کے جرائم کے کمیشن کے حالیہ اجلاس میں ملکوں نے  اِن معیارات کی متفقہ طور پر توثیق کی ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ اِس سال کے اواخر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اِنہیں منظورکرلے گی۔ منڈیلا ضوابط کی جڑیں انسانی حقوق اور انفرادی وقارمیں پیوست ہیں. یہ ضوابط مجرمانہ انصاف کے شعبے میں ہونے والی سائنسی پیشرفت کی عکاسی کرتے ہیں۔

منڈیلا نے جو تحریر کیا وہ یہ ہے: “یہ کہا جاتا ہے کوئی کسی قوم کو حقیقی طور پر اُس وقت تک نہیں جانتا جب تک وہ اُس کی جیلوں میں نہ رہا ہو۔ کسی قوم کو اِس طرح نہیں پرکھا جانا چاہیے کہ وہ اپنے اعلٰی ترین شہریوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے اُس کا اپنے کم ترین شہریوں کے ساتھ سلوک کیسا ہے۔”