جینیاتی تبدیلی والی فصلیں موسمیاتی تبدیلی کی رفتار کو سست کر سکتی ہیں۔ جانیے کیسے

مکئی کی فصل کا ایک کھیت۔ (© Cornell Alliance for Science)
تنزانیہ میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ اور خشک سالی برداشت کرنے والی مکئی کی بھرپور فصل۔ (© Cornell Alliance for Science)

موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے والی زراعت سے متعلق دو قسطوں پر مشتمل سلسلے کا یہ پہلا مضمون ہے۔ اگلی قسط ایسی کاشت کاری کے بارے میں ہوگی جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے موافقت پیدا کرسکے۔

ٹریکٹر چلانے، زمین میں ہل چلانے، کھاد یا کیڑے مار دواؤں کے استعمال جیسی بہت سے زرعی سرگرمیوں سے ماحول میں زمین سے خارج ہونے والیں گرین ہاؤس گیسیں شامل ہو جاتی ہیں۔ مگر ماہرین یہ دیکھ رہے ہیں آیا کہ جینیاتی تبدیلی والی فصلیں اِن اخراجوں کو کم کر سکتی ہیں۔

جب سائنس دان خلیوں کی حیاتیات کی جینیاتی تشکیل کو تبدیل کرنے کے لیے خلیوں کو مختلف طریقے سے ترتیب دینے والی ڈی این اے ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں تو یہ عمل جینیاتی انجنیئرنگ یا جینیاتی تبدیلی کہلاتا ہے۔ 2019 میں یہ جدید زراعت کی تاریخ میں سب سے تیزی سے اپنائی جانے والی فصلوں کی ٹیکنالوجی بن گئی۔ انٹرنیشنل سروس فار دی ایکوزیشن آف ایگری بائیوٹیک ایپلی کیشنز (آئی ایس اے اے اے) یعنی زرعی حیاتیاتی ٹکنالوجی کی اپلیکیشنوں کے حصول کی بین الاقوامی سروس کے مطابق، اُس سال کے دوران جس کے لیے تازہ ترین اعداد و شمار دستیاب ہیں 29 ممالک کے کسانوں نے 190 ملین ہیکٹر رقبے پر  جینیاتی انجنیئرنگ والی فصلیں اُگائیں۔

عام طور پر جینیاتی تبدیلی والی شدہ فصلوں میں مکئی، سویابین، کپاس اور کینولا کی اقسام شامل ہیں۔ ان کی نئی خصوصیات زرعی چیلنجوں سے نمٹ سکتی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلیوں کی رفتار کو سست کرنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ ان فصلوں میں پیدا ہونے والی دو نمایاں خصوصیات میں جڑی بوٹیاں تلف کرنے اور کیڑے مکوڑے مارنے والی دواؤں کے چھڑکاؤ کے خلاف فصلوں میں مزاحمت کا پیدا ہونا شامل ہے۔

کورنیل الائنس فار سائنس کے مطابق اِن خصوصیات کی وجہ سے کسانوں میں 1996 اور 2018 کی درمیانی مدت میں کیڑے مار دواؤں کا چھڑکاو 8.6 فیصد کم ہوا۔

کم جڑی بوٹیاں اور بوائی کے لیے زمین کو تیار کرنے میں کم مشقت

جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی دواؤں کے خلاف مزاحمت والی فصلوں پر جب غیرضروری جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کے لیے دوائیں چھڑکی جاتی ہیں تو اس سے فصل مرتی یا مرجھاتی نہیں ہے۔

ٹکیساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے مٹی اور فصلوں کی سائنسوں کے شعبے کے سربراہ، ڈیوڈ بالٹنسپرگر نے کہا کہ جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی دواؤں کے خلاف مزاحمت والی فصلوں کی وجہ سے “پیداوار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس سے فصلوں کی دیکھ بھال کے دیگر متغیرات سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور یہ یقین ہوتا ہے کہ جڑی بوٹیوں کو ختم کرنے کے لیے چھڑکی جانے والی دواؤں سے فصلوں کو نقصان نہیں پہنچے گا۔”

مزے کی بات یہ ہے کہ مزاحمت کی حامل ایسی فصلوں کا نتیجہ جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی دواؤں کے کم سے کم استعمال اور زمین کو بوائی کے لیے تیار کرنے پر کم محنت کی صورت میں نکلتا ہے۔

زمین کو بوائی کے لیے تیار کرنے سے جڑی بوٹیوں کی جڑوں کا نظام تباہ ہو جاتا ہے۔ مگر مٹی اوپر نیچے کرنے سے اور اس کام میں ٹریکٹروں کے استعمال سے فضا میں گرین ہاؤس گیسیں بھی خارج ہوتی ہیں۔ جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی دواؤں کے خلاف مزاحمت والی فصلوں کے لیے زمین کی کم تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں کم گرین ہاؤس گیسیں خارج ہوتی ہیں اور کسان زمین کا کٹاؤ کم کر سکتے ہیں اور پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

سائنس دانوں نے جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی دواؤں کے خلاف مزاحمت والی فصلیں امریکہ میں 1996 میں متعارف کرائیں۔ آئی ایس اے اے اے کے مطابق 2020 تک امریکہ کے مکئی کے کاشت کے مجموعی رقبے کے 90 فیصد حصے پر اس قسم کے بیج استعمال کیے جا رہے تھے۔ امریکہ میں جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی دواؤں کے خلاف مزاحمت والی دیگر فصلوں میں کپاس، کینولا اور سویا بین شامل ہیں۔

اسی طرح فصلوں میں نقصان پہنچانے والے کیڑوں مکوڑوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے کیڑے مارنے والے بیکٹیریا کی پروٹین داخل کرکے فصلوں کو جینیاتی طور پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایسی فصلیں  “بی ٹی فصلیں” کہلاتی ہیں کیونکہ اِن میں مٹی کے بیسیلس تھورینجینس (بی ٹی) نامی ایک بیکٹیریا سے حاصل کی جانے والیں پروٹینیں داخل کی گئی ہوتی ہیں۔ کارنیل الائنس فار سائنس کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 405 ملین ہیکٹر زرعی  زمین پر ایسی فصلیں اگائی جاتی ہیں جن میں بی ٹی شامل ہوتی ہیں۔

کیڑے مار دواؤں کے خلاف مزاحمت والی فصلیں اگانے والے کسان فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیمیائی مادے چھڑکے بغیر کیڑوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کیڑے مار دوائیں چھڑکنے والی مشینوں سے پیدا ہونے والی گیسوں کے اخراجوں میں بھی کمی آتی ہے۔

 بینگنوں کی فصل (© Cornell Alliance for Science)
جینیاتی تبدیلی والے بی ٹی بینگن بنگلہ دیش میں اگائے جاتے ہیں اور اِن میں کیڑوں مکوڑوں کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔ (© Cornell Alliance for Science)

بی ٹی جینز 1996 سے امریکی مکئی اور کپاس کی پیداوار کے لیے دستیاب چلی آ رہی ہیں۔ امریکی محکمہ زراعت کے مطابق امریکہ کے مکئی کے کھیتوں کے 82 فیصد اور کپاس کے کھیتوں کے 88 فیصد رقبے پر اس قسم کی برداشت والی فصلیں بوئی گئیں۔ اس کے نتیجے میں جڑی بوٹیاں تلف کرنے کے لیے کم سے کم دواؤں کی ضرورت اور فصلیں بونے کے لیے زمین تیار کرنے کے لیے کم محنت درکار ہوتی ہے۔

کیڑوں مکوڑوں کے خلاف مزاحمت والی فصلیں پوری دنیا میں اگائی جاتی ہیں۔ تاہم ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا اور امریکہ میں یہ فصلیں وسیع پیمانے پر کاشت کی جاتی ہیں۔

بی ٹی فصلیں کسانوں کو اعلی معیار کی اورغذائیت سے بھرپور پیداوار کی یقین دہانی فراہم کرتی ہیں۔ (بالٹنسپرگر نے بتایا کہ جب فصلوں میں کیڑوں مکوڑوں کے خلاف مزاحمت نہیں ہوتی تو “آپ کی بہت سی خوراک کیڑوں کے ذریعے ضائع ہو جاتی ہے کیونکہ وہ فصل کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ انسانی استعمال کے قابل نہیں رہتیں۔) بھارت اور آسٹریلیا جیسے ملکوں میں  چھوٹے کھیتوں میں بی ٹی کپاس زیادہ سے زیادہ اگائی جا رہی ہے۔ آئی ایس اے اے اے کے مطابق اس کے اگانے سے کیڑے مار دواؤں کا استعمال کم ہو کر آدھا رہ جاتا ہے جبکہ کسانوں کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔

بنگلہ دیش میں بی ٹی برنجل (بینگن) نے کسانوں کو زیادہ پیسے کمانے اور زیادہ لوگوں کو خوراک فراہم کرنے کے قابل بنا کر، خوراک کے نظام کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔

کاشتکار محمد میلون میا نے الائنس فار سائنس کو بتایا، “روایتی اقسام سے، کیڑوں کے نقصان کی وجہ سے میری فصل کا 40 فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔” بی ٹی بینگن سے “مجھے کیڑے مار دوا استعمال کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور فصل کو کیڑوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ میرے تمام پڑوسی بہت خوش ہیں اور وہ کہتے ہیں، ‘یہ کیا ہے؟ براہ کرم ہمیں بھی ایک بینگن دیں، ہم اسے چکھنا چاہتے ہیں!'”

ماحولیات کے حوالے سے سمارٹ زراعت میں اضافہ ہو رہا ہے۔