
موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے والی زراعت سے متعلق دو قسطوں پر مشتمل سلسلے کا یہ دوسرا مضمون ہے۔ پہلی قسط کاشت کاری کی ایک ایسی ٹکنالوجی کے بارے میں تھی جو آب و ہوا کی تبدیلی کی رفتار کو سست کر سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک نئی رپورٹ نے آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر دنیا نے فوری قدم نہ اٹھایا تو آتشزدگیاں، شدید گرمی، تیز بارش اور خشک سالیاں عام کا معمول بن جائیں گیں۔
کچھ کسان جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں اگا کراس صورت حال سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ فصلیں کھیتوں کو جھلسا دینے والی خشک سالیوں ے اور زمین اور پودوں کو تباہ کرنے والے سیلابوں کے باوجود پھلتی پھولتی ہیں۔
سارہ ایوانیگا کورنیل الائنس فار سائنس کی ڈائریکٹر اور بوائس تھامسن انسٹی ٹیوٹ میں پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بدقسمتی سے بذات خود کاشت کاری میں درختوں کو کاٹنا، مٹی کی کٹائی کرنا اور گرین ہاؤس گیسوں کو خارج کرنے والی مشینری استعمال کرنا آب و ہوا کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ ہم جنیاتی طور پر تبدیلی کے وسائل کو استعمال کرکے ماحول کو پہنچنے والے ان نقصانوں سے نمٹ سکتے ہیں اور ماحول دوست، موسمی سختیاں برداشت کرنے والی فصلیں پیدا کر سکتے ہیں۔
مکئی کو پھلنے پھولنے کے لیے کثرت سے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ نسبتا خشک علاقوں میں امریکی کسان اب خشک سالی برداشت کرنے والی مکئی کاشت کر رہے ہیں۔ امریکی محکمہ زراعت کے مطابق اس خصوصیت کے حامل جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج بونے کے بعد، کسان آب و ہوا کو پہنچنے والے نقصان اور آب پاشی میں کمی لا رہے ہیں اور اس سے فصلوں کی پیدا وار بھی زیادہ ہو رہی ہے۔ وہ اس کے لیے مٹی، پانی اور توانائی کے استعمال میں بچت کرتے ہیں جو کفایت شعار زراعت کہلاتی ہے۔
ایوانیگا نے بتایا کہ جنوبی افریقہ میں کچھ فصلوں میں جینیاتی طور پر اس لیے ترمیم کی جاتی ہے تاکہ فصلوں میں خشک سالی اور کیڑوں مکوڑوں کے خلاف زیادہ قوت برداشت پیدا ہو جس سے مکئی بونے سے لے کر کاٹنے تک کے تمام مراحل پر نقصان پہنچانے والا ایک مخصوص کیڑا نہیں پیدا ہو پاتا ہے جسے انگریزی میں “فال آرمی وورم” کہتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے زرعی مشیر ایڈم کورنش نے کہا کہ ایسی فصلیں کسانوں کو اپنی سرمایہ کاری پر بہتر منافع حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ کورنیش نے کہا، “جب کبھی بھی کوئی کسان یہ کہہ سکنے کے قابل ہوتا ہے، ‘میں نے جو کچھ کیا ہے اس کے نتیجے میں جو چیز مجھے ملے گی اسے میں فروخت کر سکتا ہوں،’ اِس سے اُس کے مجموعی حالات بہتر ہوتے ہیں۔” عام طور پر کسانوں اور کھیتوں میں مزدوری کرنے والوں کی آمدنیوں میں اضافے سے مقامی معیشت کو سہارا ملتا ہے۔

جنوبی ایشیا میں اگائے جانے والے سکوبا چاولوں میں جینیاتی طور پر ترمیم کی گئی ہے تاکہ عام طور پر سیلابوں سے تباہ ہو جانے والی چاولوں کی فصل کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کی اینڈانگ سپٹیننگ سہ کہتی ہیں کہ امریکہ میں سائنس دان چاول، مکئی، گندم سمیت سویا بین اور زیادہ تر دیگر اجناس کی سیلابوں کا مقابلہ کرنے والی اقسام پر تحقیق کر رہے ہیں۔ تاہم وہ خبردار کرتی ہیں کہ کسانوں کے استعمال کے لیے انہیں تیار کرنے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔
اس کے باوجود، ماہرین پرامید ہیں کہ جینیاتی انجینئرنگ آب و ہوا کی تبدیلی اور بار بار آنے والے سیلابوں اور خشک سالی سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔