حال ہی میں امریکی شہریت حاصل کرنے والوں سے ملیے

ایک بڑے کمرے میں جس کی دیواروں پر تصویریں آویزاں ہیں، کھڑے ہوئے لوگ۔ (State Dept./Mary E. Nagel)
واشنگٹن میں 11 اکتوبرکو شہریت دینے کی ایک تقریب سے رچرڈ سٹینگل کا خطاب۔ (State Dept./Mary E. Nagel)

یہ مضمون محکمہ خارجہ کے انڈر سیکریٹری برائےعوامی سفارت کاری  اور عوامی امور، رچرڈ  سٹینگل نے شیئر امریکہ کے  لیے تحریر کیا۔

ایوانِ کانگریس سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں مجھے، 11 اکتوبر کو 125 نئے امریکی شہریوں کو شہریت دیئے جانے کی ایک تقریب سے خطاب کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔

تقریب کی صدارت عزت مآب جج  تانیہ چوٹکن نے کی۔ ان کا تعلق جمیکا سے ہے اور انہوں نے بذات خود امریکہ کی شہریت ایک تارک وطن کی حیثیت سے حاصل کی۔ اس تقریب میں 51 ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کا ایک ایسا حیرت انگیزگروپ تشکیل پا گیا جس کے ارکان کا تعلق قزاقستاں سے لے کر کینیا تک اور ارجنٹینا سے لے کر آسٹریلیا اور عراق سے لے کر اٹلی تک تھا۔

یہ عورتیں اور مرد، درجنوں مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف عقائد رکھتے ہیں اور مختلف روایتی ورثوں کے امین ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی کہانی منفرد اور غیرمعمولی ہے۔ لیکن ان کی مجموعی کہانی ہی وہ عنصر ہے جو امریکہ  کو ایک منفرد اور غیر معمولی ملک بناتی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ امریکیت میں کسی قسم کی کوئی درجہ بندی نہیں  ـــــ وہ حلف وفاداری اٹھانے والے دن سے ہی 100 فیصد امریکی بن گئے ہیں۔ اُن کے امریکی ہونے کے حوالے سے یہ حرفِ آخر ہے۔ اور یہ کہ ان کی کہانی ہی امریکہ کی کہانی ہے۔

لوگ اپنا اپنا ہاتھ فضا میں بلند کر کے حلف اٹھا رہے ہیں۔ (© AP Images)
پاکستان سے آئے ہوئے 19 سالہ عماد چودھری جرسی سٹی ہال میں 25 اپریل 2014 کو شہریت کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ (© AP Images)

میں نے اپنی تقریر میں وضاحت کی کہ میرے نزدیک اس کے کیا معنی ہیں ــــ اور وہ کون سی ذمہ داریاں ہیں جو شہریت حاصل  کرتے ہی ہم پر عائد ہو جاتی ہیں۔ میری گفتگو کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

میرا خاندان یہاں بحری جہاز مے فلاور میں نہیں آیا تھا اور نہ ہی میرے دادا اس ملک میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ جب بچپن میں بحری جہاز سے یہاں پہنچے تو ان میں سے کوئی بھی انگریزی نہیں بولتا تھا۔ انہوں نے ہائی سکول سے گریجویشن نہیں کی۔ لیکن میرے دادا اور میرے والد دونوں نے ہی اپنے چھوٹے موٹے کاروبار شروع کیے ــــ  جیسا کہ آج بھی پیدائشی امریکیوں کی بجائے نئے آنے والے تارکین وطن کے لیے ایسا ہی کرنے کا زیاہ امکان ہوتا ہے۔ میرے والد  نے، جو بروکلین میں پلے بڑھے، پورے امریکہ سے تعلق رکھنے والے اُن نوجوانوں کے ساتھ مل کر دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا، جو سب ہی تارکین وطن کی اولادیں تھے یا بذات خود تارکین وطن تھے۔

یہی وجہ ہے کہ میرے لیے یہ تقریب ارکانِ کانگریس کی حلف برداری کی تقریب، یا سپریم کورٹ کے ججوں یا امریکہ کے صدر کی حلف برداری کی تقریب  سے بھی بڑھکر ہے کیونکہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک امریکی ہونے کے کیا معانی ہیں۔

تالیاں بجاتے ہوئے لوگوں کا ہجوم۔ (© AP Images)
ڈومنیکن ری پبلک سے آئے ہوئے الفانزو پیریز 755 شہریوں کے ہمراہ تالیاں بجا رہے ہیں ـــــ یہ تعداد ایٹلانٹا کی بیس بال ٹیم “بریوز” کے کھلاڑی ہینک آرون کے بنائے ہوئے ہوم رنز کے برابر ہےــــــ ان لوگوں نے شہریت کا حلف 16 ستمبر 2016 میں ٹرنڑ فیلڈ نامی “بریوز” کے کھیل کے میدان میں اٹھایا ۔ (© AP Images)

دوسری اقوام کے برعکس ہم لوگ مشترکہ روایتی  ورثے، مشترکہ خون، مشترکہ مذہب کی بنیاد پر یکجا نہیں ہوتے۔ ہمیں کچھ غیر معمولی تصوارت کے مجموعے نے متحد رکھا ہوا ہے: یعنی پیدائشی طور پر سب انسان برابر ہوتے ہیں۔ ان کے خالق نے انہیں کچھ ناقابل تنسیخ حقوق ودیعت کیے ہیں ـــــ یعنی زندہ رہنے کا حق، آزادی کا حق اور خوشی کی جستجو کا حق۔

یہ چیز ہمیں ایک بندھن میں باندھتی ہے اور یہی ہمیں امریکی بناتی ہے۔

آج کا دن ایک حیرت انگیز دن ہے۔ آج کے دن آپ کی امریکی کہانی کا محض آغاز ہونے جا رہا ہے۔ جیسا کہ جسٹس برینڈیس نے کہا، آپ حلف اٹھا نے کے بعد اس ملک کے بلندترین منصب پر فائز ہوچکے ہیں۔ اور یہ منصب اس ملک کا شہری ہونا ہے۔

جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جوکسی بھی دوسرے نظام کی نسبت آپ سے سب سے زیادہ ذمہ داریوں کا تقاضا کرتا ہے۔ مطلق العنانیت یا آمریت میں، آپ اپنے لیے کسی چیز  کا انتخاب نہیں کرتے، آپ کوئی فیصلہ  نہیں کرتے بلکہ آپ کے لیے تمام فیصلے کوئی اور کرتا ہے۔ جبکہ جمہوریت میں آپ اپنی تقدیر کے مالک خود ہوتے ہیں۔

امریکی پرچم پکڑے ہوئے وردی میں ملبوس ایک آدمی۔ (© AP Images)
امریکی بحریہ کے پیٹی آفیسر رجی نالڈ چروبن، 21مئی 2007 کو ورجینیا میں، ماؤنٹ ورنن کے مقام پر شہریت کا حلف اٹھانے سے پہلے پرچم پکڑے ہوئے ہیں۔ (© AP Images)

اور یہی وہ مقام  ہوتا ہے جہاں ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔ 229 سال قبل جب بینجمن فرینکلن فلاڈیلفیا میں آئین پر دستخطوں کے بعد ہال سے باہر نکلے تو ایک عورت نے ان سے پوچھا کہ کیا چیز تخلیق کر کے آئے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ محترمہ، ایک جمہوریت؛ اگر آپ اسے سنبھال سکیں۔

اگر آپ اسے سنبھال سکیں۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ مقدّس اصولوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے آپ اس میں شریک ہوں، اپنی ذمے داریاں پوری کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کریں اور باخبر رہیں۔ فرینکلن اور دوسرے بانی اس  بارے میں فکر مند تھے کہ لوگ بلند بانگ دعوے کرنے والوں سے دھوکا کھا جائیں گے اور جھوٹے لوگ انہیں بیوقوف بنائیں گے، یہ کہ وہ ایسے حکمرانوں کے زیر اثر آجائیں گے جو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کریں گے اور اس طرح لوگوں کا اصل امریکی تصورات سے تعلق ختم ہو جائے گا۔

جیسا کہ ملک کے بانیوں نے کہا تھا کہ حکمرانی، عوام کرتے ہیں۔ جمہوریت کی اصل تعریف، یہی ہے۔ آئین کے پہلے تین الفاظ [We the People] ’’ہم، عوام‘‘ ہیں۔  ہم، حکومت نہیں۔ یا ہم بالائی طبقہ نہیں۔ یا ہم ارب پتی نہیں۔ یہ الفاظ ہم، عوام ہیں۔ یہ ہم، عوام کی طاقت ہے جو حکومت کو حقوق دیتی ہے۔ حکومت ہمیں حقوق نہیں دیتی، ہم یعنی عوام حکومت کو حقوق دیتے ہیں۔ یہی حقیقت اُس خصوصیت کا ایک جزو ہے جو ہمیں غیرمعمولی بناتی ہے۔

بعض اوقات سیاست دان اور لیڈر امریکیوں کو “ہم” اور “وہ” میں تقسیم کردیتے ہیں ــــ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی زمانے میں ہم سب بھی “وہ” ہی ہوا کرتے تھے۔

اپنے بعد آنے والوں پر دروازے بند کرنے کی ہماری ایک تاریخ رہی ہے جن میں آئرلینڈ کے لوگوں کو ملازمتیں نہ دینا، یہودی ناقبولیت، جاپانیوں کی کیمپوں میں نظر بندی، چینیوں پر تارکین وطن کی حیثیت سے امریکہ آنے پر پابندی کا قانون، اور میکسیکو کے لوگوں کو بدنام کرنا شامل ہیں۔ اور ہاں، امریکہ کا اصل گناہ  ـــــ  یعنی وہ غلامی ہے جس کے تحت افریقیوں کو ان کی  مرضی کے خلاف تارکین وطن بنایا گیا۔ ہماری تاریخ ہمیشہ خوبصورت نہیں رہی، لیکن ایک بات جو ہمیشہ آپ کو ذہن میں رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے مساٗئل پر پردہ نہیں ڈالتے بلکہ انہیں سرعام ظاہر کرتے ہیں ـــــ ہم میں بہت سی خامیاں ہیں، لیکن ہم انہیں چھپاتے نہیں اور اپنے اس اتحاد کو، اکٹھا مل کر کامل بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

لوگ امریکی پرچم پکڑے ہوئے کھڑے ہیں۔ (© AP Images)
یکم جولائی، 2009 میں میامی میں شہریت دینے کی ایک تقریب میں 24 ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں شامل، ایک کیوبائی عورت کا ردّ عمل۔ (© AP Images)

جب میں بڑا ہورہا تھا تو تارکین وطن سنار کی اس کٹھالی کی طرح تھے جس میں سب کچھ یکجان ہو جاتا ہے۔ لوگ گھل مل جانا چاہتے تھے۔ وہ اپنے لہجے بھول جاناچاہتے تھے۔ امریکی کھانے بناتے تھے۔ نیلی جین اور ٹی شرٹ پہنتے تھے۔ آخر ہمارا قومی مقولہ بھی تو ‘E pluribus Unum’  ہے ، یعنی بہت سوں کا حاصل، ایک۔

لیکن میرے خیال میں، آج ہمارے سامنے جو ماڈل ہے وہ کئی ایک رنگ برنگے  پیوندوں کا ایک ایسا لحاف ہے، جس میں آپ کو اپنی روایات یا ورثے کو ترک نہیں کرنا پڑتا، بلکہ آپ اسے اپنی شہریت میں سمو لیتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی پرانی اور نئی ثقافت کا امتزاج ہے۔

تارکین وطن اور پناہ گزین امریکہ کو مالا مال کرتے ہیں اور اسے بڑا بناتے ہیں۔ وہ امریکی تجربے کی تجدید کرتے ہیں اور اسے ایک نئی تازگی بخشتے ہیں۔ ایک ملک کی حیثیت سے یہ ہمارا ڈی این اے ہے۔ ہم اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔

اسی وجہ سے سب سے نئے امریکی حقیقی معنوں میں امریکی ہوتے ہیں۔