حال ہی میں’ مریخ پر‘ ایک سال گزارنے والے سائنس دانوں نے کیا سیکھا ہے؟

مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے چھ سائنس دان سیارہ مریخ سے ملتے جلتے ایک مصنوعی ماحول میںً ایک سال گزارنے کے بعد جب 28 اگست کو ہوائی میں اپنے گنبد نما خیمے سے باہر نکلے تو وہ خلائی سفر کے انسانی مستقبل کے بارے میں بہت پُرامید دکھائی دیئے۔

اس عملے کے ایک فرانسیسی رکن سِپرین ورساؤ نے بتایا، ’’مستقبل قریب میں مریخ کا سفر ایک حقیقت پسندانہ بات لگتی ہے۔ میرے خیال میں تکنیکی اور نفسیاتی رکاوٹوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔‘‘

گزشتہ ایک سال کے دوران “ماؤنا لوا” نامی آتش فشاں پہاڑ پرگنبد میں مقیم اس گروپ کے ارکان، صرف خلائی سوٹ پہن کر باہر جا سکتے تھے۔

ناساکے خرچ پر ہوائی سپیس ایکسپلوریشن اینالاگ اینڈ سمولیشن  (HI-SEAS)نامی اس پروگرام میں شامل خلابازوں کو اپنے محدود وسائل  کے ماحول میں رہتے ہوئے ریسرچ کرنا تھی اور ذاتی اختلافات سے اجتناب برتتے ہوئے کام کرنا تھا۔

عملے کی ایک جرمن رکن کرسٹیان ہائینیکے نے بتایا کہ خشک آب و ہوا کے ماحول میں سائنس دان اپنے لیے پانی تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔

انہوں نے کہا، ’’اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بظاہر خشک دکھائی دینے والی سطح سے آپ حقیقت میں، پانی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ طریقہ مریخ پر بھی کار گر ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ چھوٹا سا گرین ہاؤس بنا کر مریخ پر پانی حاصل کرسکیں گے۔‘‘

یونیورسٹی آف ہوائی میں فنِ تعمیر میں پی ایچ ڈی کرنے والے ایک  طالب علم، ٹرسٹین باسنگس ویٹ نے عملے کے لیے ایک ماہر تعمیرات کے فرائض انجام دیے۔

ہوائی میں اس تجربے کے علاوہ بھی ناسا طویل مدت کے خلائی سفر کی تیاری کرتا چلا آ رہا ہے۔  اس سلسے میں  انسانی صحت پر طویل خلائی سفر کے اثرات کا مطالعہ کرنے ، روبوٹ  اور راکٹ تیار کرنے، حتٰی کہ ممکنہ طور پر پہلی بار خلائی آلو   اگانے پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔

ہوائی سپیس ایکسپلوریشن اینالاگ اینڈ سمولیشن کے لیےچھان بین کرنے والوں کی سربراہ، کم بنسٹیڈ نے کہا کے ریسرچ کرنے والے ماہرین کی نظر، سمندر میں جانے اور تازہ سبزیا ں اور ایسی دوسری چیزیں کھانے کے تجربات پر ہے جو گنبد میں میسر نہیں تھیں۔

یونیورسٹی آف ہوائی کے زیرانتظام ہونے والے اس مطالعے کی مالی اعانت، ناسا نے کی۔ بنسٹیڈ نے کہا کہ روس میں 520 دنوں تک جاری رہنے والے ایک مطالعے کے بعد یہ مصنوعی ماحول میں چلایا جانے والا دوسرا طویل ترین مشن  تھا۔