
جدید ٹکنالوجیاں اپنے ساتھ بےتحاشا فوائد لے کر آتی ہیں۔ مائیکرو چپس مختلف قسم کے آلات چلاتی ہیں اور خلائی تحقیق میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں اور بجلی پیدا کرنے کے جوہری پلانٹ لاکھوں لوگوں کو بجلی فراہم کرتے ہیں۔
اس کے برعکس اگر جدید اور حساس ٹیکنالوجیاں اگر غلط ہاتھوں میں چلی جائیں تو یہ سکیورٹی کے سنگین خطرات کا باعث بن سکتی ہیں۔ کمپیوٹر چپس میزائلوں کی رہنمائی بھی کرتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ غلط کار حکومتیں جوہری مواد کو ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال کریں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور بہت سے بین الاقوامی شراکت دار کثیر جہتی فورموں میں شرکت کرتے ہیں جس سے دنیا کے ممالک کو ممکنہ طور پر خطرناک اشیا اور ٹیکنالوجی کو ہتھیاروں کو پھیلانے والوں، دہشت گردوں اور دیگر برے عناصر سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ جدت طرازی سے مشترکہ طور پر مستفید ہونے میں مدد بھی ملتی ہے۔
آلات اور ٹکنالوجی کو ذمہ داری سے کنٹرول کرنے کے لیے یہ کثیرجہتی شراکت داریاں پالیسیاں اور طریقہائے کار وضح کرتی ہیں جن کے تحت ایسی اشیاء اور ٹیکنالوجیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جو سول اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکتی ہوں۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے ممالک کو برآمداتی کنٹرول قائم کرنے میں مدد ملتی ہے جس کا مقصد ممکنہ طور پر خطرناک ٹیکنالوجی کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنا ہوتا ہے۔
مؤثر طریقے سے نافذ کیے گئے برآمداتی کنٹرول کمپنیوں اور تحقیقی اداروں کو یہ اعتماد دے کر تجارت میں سہولت فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور بین الاقوامی سلامتی کو نقصان پہنچانے میں ملوث نہ ہوں۔

سامان اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کو کنٹرول کرنے کے لیے مندرجہ ذیل چار بین الاقوامی بندوبست کیے گئے ہیں:-
- آسٹریلیا گروپ: 1985 میں قائم کیا جانے والا آسٹریلیا گروپ 42 ممالک پر مشتمل ہے۔ یہ ممالک اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی سازی میں تعاون کرتے ہیں کہ برآمدات سے کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری کے پروگراموں میں مدد نہ لی جا سکے۔
- میزائل ٹکنالوجی کنٹرول رجیم یا ایم ٹی سی آر: میزائل ٹکنالوجی کے کنٹرول کا نظام یا ایم ٹی سی آر 1987 میں تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے 35 اراکین ہیں جو میزائلوں کی تیاری، پیداوار اور آپریشن میں کام آنے والے آلات، سامان، سافٹ ویئر اور ٹیکنالوجیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔
- نیوکلیئر سپلائرز گروپ یا این ایس جی: 1975 میں تشکیل دیئے گئے اس گروپ کے شرکاء کی تعداد 48 ہے۔ این ایس جی جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سامان، آلات اور ٹیکنالوجی کی برآمد کے لیے رہنما اصول وضح کرتا ہے۔
- روایتی ہتھیاروں اور دوہری استعمال کے سامان اور ٹکنالوجیوں کے برآمدی کنٹرول سے متعلق واسنار انتظام: 1996 میں تشکیل دیا جانے والا 42 اراکین پر مشتمل واسنار انتظام ایسی اشیاء اور ٹکنالوجیوں کی برآمدات سے متعلق رہنما اصول وضح کرتا ہے جنہیں ہتھیاروں، نگرانی اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ یہ بین الاقوامی شراکت داراںی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے خطرے کو محدود کرکے دنیا کو محفوظ بنانے کی کوشش کرتی ہیں، لیکن تمام ممالک بین الاقوامی امن اور سلامتی کو درپیش خطرات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے جتنی سنجیدگی سے ان شراکت داریوں کے اراکین لیتے ہیں۔
عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) فوجی استعمال کے لیے سامان اور ٹیکنالوجیوں کے حصول کے لیے اپنے عالمی تعلقات کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ امریکہ کے قومی انٹیلی جنس کے دفتر نے اپریل میں خبردار کیا تھا کہ پی آر سی اپنی تکنیکی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی خاطر جائز حصول سے لے کر جاسوسی اور چوری تک کے مختلف ذرائع استعمال کرتا ہے۔
پی آر سی اپنے قومی انٹیلی جنس قانون ملٹری-سول فیوژن (ایم سی ایف) یعنی فوجی اور سویلین گٹھ جوڑ کے نام سے مشہور حکمت عملی کے ذریعے چینی کمپنیوں اور ماہرین کو اپنی فوج کے ساتھ ٹیکنالوجی کے اشتراک کا پابند بناتا ہے۔
پی آر سی کی طرف سے قطع نظر اس بات کی یقین دہانی کے کہ ٹیکنالوجی کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا، پی آر سی نے ایم سی ایف کے پورے نظام کو ایسے طریقے سے ازسرِنو ترتیب دیا ہے کہ جدید اور حساس ٹیکنالوجیاں اقتصادی اور فوجی دونوں طرح کی جدید کاری کو فروغ دے سکیں۔
اگست 2019 میں امریکی محکمہ تجارت نے چین کی بجلی پیدا کرنے والی چار نیوکلیئر کمپنیوں کو تب اپنی “اینٹٹی لسٹ” میں شامل کیا جب اِن کمپنیوں نے پی آر سی کی فوج کے لیے امریکی سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ “اینٹٹی لسٹ” [اداروں کی فہرست] میں شامل کمپنیاں خصوصی منظوری حاصل کیے بغیر امریکی سافٹ ویئر، ٹیکنالوجی یا دیگر سامان حاصل نہیں کر سکتیں۔
اقوام متحدہ میں 2 نومبر کو خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، لنڈا تھامس-گرین فیلڈ نے دنیا کے ممالک پر زور دیا کہ وہ ایسے کثیرالجہتی نظاموں کی پابندی کریں جو ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکتے ہیں۔ انہوں نے برآمداتی کنٹرول کو عالمی تجارت کو فروغ دینے کی ایک اہم ضرورت قرار دیا۔
تھامس-گرین فیلڈ نے کہا، “ہر ملک ان ٹیکنالوجیوں سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں اور بدنیت کرداروں کے ہاتھوں صحت، حفاظت، انسانی حقوق اور بین الاقوامی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے طریقوں کو جتنا ممکن ہو سکے اتنا کم کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔”