Three portraits (State Dept./D.A. Peterson)
بائیں سے دائیں: نکارا گوا کے فادر راول زمورا، ہولوکاسٹ میں بچ جانے والی آئرین وائس اور ویت نام کے تقدس مآب نگویان کانگ چِن۔ یہ سب مذہبی زیادتیوں کے شکار ہوئے۔ (State Dept./D.A. Peterson)

فادر [پادری] راول زمورا نے اس ماہ کے اوائل میں اس وقت 150 طلبا کو ماناگوا میں “ڈیوائن مرسی” نامی گرجا گھر میں پناہ دی جب نکاراگوا کی پولیس اور فوجی 16 گھنٹے تک فائرنگ کرتے رہے۔ اس فائرنگ میں دو طلبا ہلاک ہوئے اور گرجا گھر تباہ ہوگیا۔

زمورا نے کہا، “گرجا گھر کا کام مصیبت میں مبتلا  لوگوں کے ساتھ رہنا ہوتا ہے۔” انہوں نے کہا کہ نکارا گوا کے حکام کیتھولک چرج کو دشمن سمجھتے ہیں کیونکہ یہ چرچ اُن طلبا کی مدد کرتا ہے جو صدر ڈینیئل اورٹیگا کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

زمورا کا شمار دنیا بھر کے مختلف ممالک کے مذہبی زیادتیوں کا شکار ہونے والے اُن افراد میں ہوتا ہے جو محکمہ خارجہ کی جانب سے منعقد کی جانے والی مذہبی آزادی کی تین روزہ کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ کانفرنس کے شرکا مذہبی لیڈروں، حقوق کا پرچار کرنے والوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر زیادتیوں اور امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنے اور ہر ایک کے لیے زیادہ سے زیادہ مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس طریقوں کی نشاندہی کریں گے۔

Group of people standing in courtroom (© Bernd Thissen/AFP/Getty)
آئرین وائس (دائیں سے درمیان میں) 2016ء میں آشوِٹز کے سابقہ گارڈ رائنہولڈ ہیننگ کی ایک عدالتی سماعت کے دوران۔ (© Bernd Thissen/AFP/Getty)

کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کہا، “امریکہ تماشائی بن کر نہیں کھڑا رہے گا۔ ہم میدان میں نکلیں گے اور اظہارِ یکجہتی میں ہر اُس فرد کے ساتھ  کھڑے ہوں گے جو سب سے بڑے بنیادی انسانی حق سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہے۔”

1944 میں آئرین وائس کی عمر 13 برس تھی۔ اُن کا شمار اُن 425,000 یہودیوں میں ہوتا ہے جنہیں دو ماہ کے دوران ہنگری سے بیدخل کرکے آشوِٹز-بِرکیناؤ پہنچا دیا گیا۔ آٹھ افراد پر مشتمل وائس کے خاندان میں سے صرف انہیں اور اُن کی بہن کو مشقتی کیمپ میں ہلاک نہیں کیا گیا۔ دونوں بہنوں کو ایک دوسرے کیمپ میں منتقل کر دیا گیا جہاں اُنہیں قید کرنے والے اُس وقت بھاگ نکلے جب سوویت فوجی کیمپ کے قریب پہنچ آئے۔ وہ اور اُن کی بہن 1947ء میں نقل وطن کرکے نیویارک آ گئیں۔

وائس کہتی ہیں کہ لوگوں پر مذہبی بنیادوں پر ظلم کرنے والے “اس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ہر قسم کی دعاؤں کو سننے والا خدا، ایک ہی ہے۔ میں اس خدا کو نہیں مانتی جو اتنا تنگ نظر ہو جو میرے مذہب، ہندو مذہب اور مسلم مذہب میں امتیاز برتتا ہو۔”

مذہبی مظالم کے شکار اپنی داستانیں سنانے والے دیگر لوگوں میں مرزیا امیر زادہ اور مریم  رستم پور بھی شامل تھیں جنہیں عیسائی ہونے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا۔ اپنی والدہ کی طرف سے دیئے گئے بائبل کے ایک چھوٹے سے نسخے کی برآمدگی پر شمالی کوریا کی منحرف، جی ین-اے کو تحویل میں لے کر اُن پر تشدد کیا گیا۔

لوتھرن فرقے کے منسٹر، پادری نگویان کانگ چِن نے کئی سال قید میں گزارے۔ اُن پر اپنے عقیدے کی پیروی کرنے کی وجہ سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے گئے۔ قید میں ڈالے جانے سے پہلے بھی انہیں اور اُن کے خاندان کو مارا پیٹا گیا اور اُن کے گھر کو محض اُن کے مذہب پر عمل کرنے کی وجہ سے تباہ کر دیا گیا۔

ترجمان کی وساطت سے بات کرتے ہوئے چِن نے کہا، “مذہبی آزادی کا تحفظ اور اس کی سربلندی ہر ایک ملک کی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مذہبی آزادی ایک ایسی ضرورت ہے جسے بنی نوعِ انسان محسوس کرتی ہے۔ حقیقی مذہبی آزادی کے بغیر دنیا ایک ایسی جگہ بن جائے گی جس میں نظم یا ہم آہنگی کا وجود نہیں ہوگا۔”